کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

سُوال :  زید نے چندہ مانگتے ہوئے کہا  :  ’’  سرکارِ مدینہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی نیاز کیلئے حرام مال بھی چل جائے گا، سرکارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اپنے غلاموں   سے  حرام مال کی نیاز بھی قَبول فرما لیتے ہیں  ۔  ‘‘ یہ کہنا کیسا ؟

جواب :    زیدِ بے قید کا یہ قول غلط وباطِل اورسرکارِ دو عالم، نُورِ مجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر اِفتِراء(یعنی جھوٹ باندھنا)ہے ۔ زیداپنے قول سے توبہ کرے اور اسے چاہئے  کہ تجدیدِ ایمان  کرے اور اگر شادی شُدہ تھا تو تجدیدِ نکاح بھی کرے ۔ تفصیلی معلومات کے لیے فتاوٰی رضویہ جلد21 صَفْحَہ 105تا 111 ملاحَظہ فرمائیے ۔

غلبۂ خوف میں   بی بی عائِشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے 6 ارشادات

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  آہ  ! کاش !  ہم دنیا سے ایمان سلامت لے جانے میں   کامیاب ہو جائیں   ۔ خدا کی قسم ! ہم نہیں   جانتے کہ ہمارے بارے میں    اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کی خفیہ تدبیر کیا ہے ! تشویش ۔ ۔ ۔ ۔  تشویش ۔ ۔ ۔ ۔ انتہائی تشویش کی بات ہے ۔  ۔  ۔  ۔ ۔ خوف ۔ ۔ ۔ ۔ خوف ۔ ۔ ۔  ۔ وَاللّٰہِ العظیم سخت خو ف کا مقام ہے کہ ہم کو یہ نہیں   معلوم کہ ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو گا یا نہیں  ۔ آہ ! ہم غفلت کی چادر اَوڑھے بے خبر سو رہے ہیں  ۔ کاش !  ہمیں   حقیقی معنوں   میں   خوفِ خدا نصیب ہو جاتا ۔ {1} اُمُّ المؤمنینحضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ بنتِ صِدّیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما نے غلبۂ خوفِ خدا کے وقت فرمایا :  کاش ! میں  (بجائے انسان کے ) پتّھر ہوتی{2}کبھی فرمایا : کاش ! میں   دَرَخت ہوتی {3} کبھی فرمایا : کاش !  کاش ! میں   مٹّی کا ایک ڈَھیلا ہوتی {4}  کسی موقع پر ایک درخت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : کاش !  میں   اِس دَرَخت کا پتّا ہوتی{5} کبھی فرمایا :  کاش !  میں   گھاس ہوتی اور کوئی قابلِ ذکر شے نہ ہوتی {6} بوقتِ وِصال فرمایا :  کاش !  اللہ تعالیٰ مجھے کوئی بھی چیز نہ بناتا ۔  (الطبقات الکبری لابن سعد ج ۸ ص۵۹ ۔ ۶۰ ) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  

کاش کہ میں   دنیا میں   پیدا نہ ہوا ہوتا           قبر وحشر کا سب غم ختم ہو گیا ہوتا

کاش !  ایسا ہو جاتا خاک بن کے طیبہ کی          مصطَفٰے کے قدموں   سے میں   لپٹ گیا ہو تا

میں   بجائے انساں   کے کوئی پودا ہوتا یا

نَخْل بن کے طیبہ کے باغ میں   کھڑا ہوتا

کیا اللّٰہ کیلئے لفظ  ’’  عاشق  ‘‘  استعمال کر سکتے ہیں   ؟

سُوال :  اللہ  عَزَّوَجَلَّکو عاشق کہنا کیسا ؟

جواب : میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  : ناجائز ہے ۔ (مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں  ) معنیٔ عشق  اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کے حق میں   مُحالِ قطعی ( یعنی قطعاً ناممکن) ہے اور ایسا لفظ بے وُرودِ ثبوتِ شرعی( یعنی شرعی ثبوت کے بغیر )  حضرت عزّت ( یعنی اللہ ربُّ العزّتعَزَّوَجَلَّ ) کی شان میں   بولنا ممنوعِ قَطْعی ۔ رَدُّالْمُحتَار میں   ہے :  معنیٔ مُحال کا وہم ممانعت کیلئے کافی ہے ۔  ( فتاوٰی رضویہ ج  ۲۱  ص ۱۱۶)

کیا کسی کو عاشقِ رسول کہہ سکتے ہیں  ؟

 سُوال :  کیا کسی کو عاشقِ الٰہی یا عاشقِ رسول بھی نہیں   کہہ سکتے ؟

جواب :  اگروہ اِس کا اہل ہو تو کہنے میں   کوئی مُضایَقہ نہیں  ۔ مَحَبَّت اور عشق کے معنیٰ میں  قَدرے فرق ہے ۔  دراصل اللہ و رسولعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    سے مَحَبَّت  تو ہر مسلمان کرتا ہی ہے مگر  ’’  عاشق ‘‘  کا دَرجہ کوئی کوئی پاتا ہے ۔ عشق کامعنیٰ بیان کرتے ہوئے عربی لغت ’’  لسانُ العرب  ‘‘ جلد2 صَفَحہ 2635  پر ہے :  اَلْعِشْقُ فَرْطُ الْحُبِّ یعنی مَحَبَّتمیں   حد سے تجاوُز کرنا عشق ہے ۔  میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰنعشق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  : مَحَبَّتبمعنی لُغوی جب پُختہ اورمُؤَکَّدہ(یعنیمَحَبَّت جب بَہُت زیادہ پکّی ) ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ تعالیٰ سے پختہ مَحَبَّت ہو جائے اور اس پرپُختَگیِٔ مَحَبَّت کے (اس طرح) آثار ظاہِر ہو جائیں   کہ وہ ہمہ اوقات اللہ تعالیٰ کے ذکرو فکر اور اس کی اطاعت میں   مصروف رہے تو پھر کوئی مانِع(یعنی رکاوٹ) نہیں   کہ اس کی مَحَبَّتکو عشق کہا جائے ، کیونکہ مَحَبَّت ہی کا دوسرا نام عشق ہے ۔  (فتاوٰی رضویہ ج۲۱ ص ۱۱۵تا ۱۱۶)

عاشقِ رسول کی 6نشانیاں