کرتا تھا لہٰذا بطورِ تحدیثِ نعمت اپنے مبارَک کلام کے بارے میں ایک رُباعی ارشاد فرماتے ہیں ؎
ہوں اپنے کلام سے نہایت مَحظُوظ بے جا سے ہے اَلْمِنّۃُ لِلّٰہ مَحفوظ
قراٰن سے میں نے نعت گوئی سیکھی یعنی رہے اَحکامِ شریعت مَلْحوظ
(خلاصہ : میں اپنے کلام سے خوب لطف اندوز ہو رہا ہوں کیوں کہ مجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا احسان ہے کہ میرا کلام فضول باتوں سے محفوظ ہے ۔ الحمد للہ میں نے قراٰنِ پاک سے نعت گوئی سیکھی ہے ۔ مطلب یہ کہ الحمد للہ میرا کلام شریعت کے عین مطابق ہے )
سیِّدی احمد رضا نے خوب لکھا ہے کلام
اُن کے سارے نعتیہ َاشعار پر لاکھوں سلام
سُوال : نعتیہ اشعار میں سرکارِ مدینہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کملیا والابول سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب : نہیں بول سکتے ۔ یہ قاعِدہ یا د رکھ لیجئے کہ جس کسی چیز کی نسبت تاجدارِ حرم، شَہَنْشاہِ عرب و عجمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہو وہ مُعظَّم ومحترم ہے لہٰذا اُس کی تَصغِیرمُطْلقاًممنوع ہے ۔ مَثَلاً یہی کمل کی تَصغِیر کملیا، مکھ کی مُکھڑا، آنکھوں کی انکھڑیاں ، نگر کی نَگَرْیَا ہے ۔ بارگاہِ محبوبِ ربّ ذوالجلال عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اِس طرح کے تَصغیر والے اَلفاظ کا استِعمال ممنوع ہے ۔ کملیا والاکہنے کے بارے میں مزید معلومات درکار ہو تو فتاوٰی امجدیہ جلد4صَفْحَہ 260 پر فتویٰ ملاحَظہ فرما لیجئے ۔
مَنْقَبت میں ’’ مُکھڑا ‘‘ بولنا کیسا ؟
سُوال : بزرگوں کی مَناقِب میں تَصغیر والے الفاظ مَثَلاً مُکھ کے بجائے مُکھڑا، آنکھ کے بجائے انکھڑی وغیرہ لکھنا بولنا کیسا ؟
جواب : منع ہے ۔ بُزُرگوں کی شان میں بھی آداب کا خیال رکھنا ضَروری ہے ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰنکی خدمت میں سُوال ہوا : (اس مصرع) ’’ مجھے اپنا مُکھڑا دِکھا شاہِ جِیلاں ‘‘ میں مُکھڑا کا استِعمال ٹھیک ہے یا نہیں ؟ بَیِّنُوا تُوْجَرُوا ۔ (بیان فرمایئے اَجْر پایئے )جواباً ارشاد فرمایا : یہ لفظ تَصغیر کا ہے ، اکابِر (یعنی بُزُرگوں ) کی مَدح(یعنی تعریف و توصیف) میں مَنْع ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (عرفانِ شریعت ص ۳۹) ’’ چِہرہ ‘‘ اور ’’ جلوہ ‘‘ یہ دونوں مُکھڑاکے ہم وزن الفاظ ہیں ، لہٰذا ’’ مجھے اپنا جلوہ دِکھا شاہِ جِیلاں ‘‘ کہنے سے اَدب بھی برقرار رہے گا اور کلام کا حُسن بھی دو بالا ہوجائیگا ۔ اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ
شعر ’’ مجھے بتا او جہاں کے مالک ................. ‘‘
سُوال : یہ شعر کیسا ہے ؟
مجھے بتااو جہاں کے مالک یہ کیا نظّارے دکھا رہا ہے
ترے سمُندر میں کیا کمی تھی جو آج مجھ کو رُلا رہا ہے
جواب : اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اِعتِراض کا پہلو پایا جارہا ہے اور یہ کُفرہے ۔
’’ تُو نہ ہم کو بھول جا ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : دُعامیں یہ اشعار پڑھناکیسا ہے ؟
یا خدا ! اپنے نہ آئینِ کرم کوبھول جا ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
ہے دعائے بسمِلِ نیم جاں ، کہ مِری خطاؤں کو بھول جا
ہے مجھے تو تیرا ہی آسرا ، تُو غَفور ہے تو رحیم ہے
جواب : بُھولنا ‘‘ کے اصل معنیٰ ’’ یاد نہ رہنا ‘‘ ہے ۔ تو اگر قائل کی یہی مراد ہے تب تو کفر ہے اور کہنے والے نے لفظ ’’ بھولنا ‘‘ کو ’’ چھوڑنا ‘‘ کے معنیٰ میں استعمال کیا تو کفر نہیں ۔
’’ عرشِ اعظم پہ رب ‘‘ والا شعر پڑھنا کیسا ؟
سُوال : یہ شِعر دُرُست ہے یا نہیں ؟
عرشِ اعظم پہ رب سبز گنبد میں تم کیوں کہوں میرا کوئی سہارا نہیں
میں مدینے سے لیکن بَہُت دُور ہوں یہ خَلِش میرے دل کو گوارا نہیں
جواب : اِس شِعر کے ابتدِائی الفاظ ’’ عرشِ اعظم پہ رب ‘‘ عَزَّوَجَلمیں بظاہِر مَعَاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ عرشِ اعظم پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مکان مانا گیا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے مکان ماننا کُفرِ لُزومی ہے ۔ اگر اِس شِعر کی ابتِداء میں ’’ عرشِ اعظم کارب ‘‘ عَزَّوَجَلَّپڑھیں تو شعر شرعی گرفت سے نکل جائے گا ۔
’’ جب روزِ حَشر تخت پہ بیٹھے گا کبرِیا ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : نَماز کی تلقین سیمُتَعَلِّق ایک نَظم کیسِٹ میں سُنی جاتی ہے ، اُس میں بے نَمازی کے مَذَمَّت میں پڑھے جانے والے اِس شِعر کے بارے میں حکمِ شَرعی کیا ہے ؟