بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ وَحدہٗ لاشریک ہے ۔ بیان کردہ شعر میں بندے کو ’’ چاہتوں کا خدا ‘‘ مانا گیا ہے جو کہ کُھلا، کفر و شرک ہے ۔
(28)
تم سا کوئی دوسرا اس زمیں پہ ہوا تو رب سے شکایت ہوگی
تمہاری طرف رُخ غیر کا ہوا تو قِیامت سے پہلے قِیامت ہوگی
اِس شعر میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کرنے کے ارادہ کا اظہار ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کرنا کفر ہے ۔
(29)
مَحَبَّت کی قسمت بنانے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا
مَحَبَّت پہ یہ ظلم ڈھانے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا
(30)
تجھے بھی کسی سے اگر پیار ہوتا ہماری طرح تُو بھی قسمت کو روتا
یہ اشکوں کے مَیلے لگانے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا
(31)
مرے حال پر یہ جو ہنستے ہیں تارے یہ تارے ہیں تیری ہنسی کے نظارے
ہنسی میرے غم کی اُڑانے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا
(32)
زمانے کے مالک یہ تجھ سے گِلہ ہے خوشی ہم نے مانگی تھی رونا ملا ہے
گِلہ میرے لب پہ بھی آنے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا
مذکورہ اشعار اللّٰہُ ربُّ العٰلمینجَلَّ جَلا لُہٗ کی توہین سے بھرپور ہیں ، ان اشعار میں کم ازکم پانچ کُھلے کفریات ہیں {1} اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے رونا ممکن مانا گیا ہے {2} اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ظالم کہا گیا ہے {3} اسے محکوم مانا گیا ہے {4}اس کو کسی کے رنج و غم اور بے بسی پر ہنسی اُڑانے والا قرار دیا گیا ہے اور{5} اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کیا گیا ہے ۔
(33)
میں پیار کا پجاری مجھے پیار چاہئے
رب جیسا ہی مجھے سُندَر یار چاہئے
اس شعر میں دو کفریات ہیں {1} غیر خدا کی پوجا یعنی عبادت کا اقرار ہے {2} اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرح کسی اور کا ہونا ممکن ماناگیا ہے ۔ قراٰنِ مجید فرقانِ حمید پارہ 25سورۂ شوریٰ، آیت نمبر 11میں اللّٰہُ ربُّ العبادعَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے ۔
لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱۱)
ترجَمۂ کنزا لایمان : اس جیسا کوئی نہیں اور وُہی سنتا دیکھتا ہے ۔
صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں : ’’ اللّٰہ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ ذات میں نہ صِفات میں نہ افعال میں نہ احکام میں نہ اسماء(یعنی ناموں ) میں ۔ ‘‘ (بہارِ شریعت حصہ اوّل ص۱۷ )
(34)
قسمت بنانے والے ذرا سامنے تو آ
میں تجھ کو یہ بتاؤں کہ دنیا تری ہے کیا ؟
مذکورہ شعر میں کئیکفریّات ہیں : {1}عذابِ نار کے حق دار شاعرِ ناہنجار کا اللّٰہُ غفّار عَزَّوَجَلَّ کو مخاطب کرکے اس طرح کہنا : ’’ ذرا سامنے تو آ ‘‘ اللہ عَزَّوَجَلَّکو مقابلہ کیلئے چیلنج کرنا ہے اور یہ اللّٰہُ ربُّ العٰلمینجَلَّ جَلا لُہٗ کی سخت توہین ہے اور ربِّ مُبین عَزَّوَجَلَّ کی توہین کفر ہے {2} ’’ میں تجھ کو بتاؤں کہ دنیا تری ہے کیا ؟ ‘‘ کہہ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتراض کیا گیا ہے اور یہ بھی کفر ہے اور{3} تیسرا کفریہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کو مقابلے کیلئے پکارا ہے ۔ نعوذباللّٰہ تعالٰی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یاد رکھئے ! قطعی کفر پر مبنی ایک بھی شعر جس نے دلچسپی کے ساتھ پڑھا ، سنا یا گایا وہ کفر میں جا پڑا اور اسلام سے خارج ہو کر کافرو مُرتد ہو گیا ، اس کے تمام نیک اعمال اَکارت ہو گئے یعنی پچھلی ساری نَمازیں ، روزے ، حج وغیرہ تمام نیکیاں ضائع ہو گئیں ۔ شادی شُد ہ تھا تو نکاح بھیٹوٹ گیا اگر کسی کامُرید تھا تو بیعت (بَے ۔ عَت)بھی ختم ہو گئی ۔