جواب : سیِّد کی بطورِ سیِّد یعنی وہ سیِّد ہے اِس لئے توہین کرنا کُفر ہے ۔ (ماخوذ از مَجْمَعُ الْاَنْہُرج ۲ ص ۵۰۹)میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 22 صَفْحَہ 420 پرفرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم فرض ہے اور اُن کی توہین حرام ، بلکہ علمائے کرام نے ارشاد فرمایا : جو کسی عالم کومَولوِیا (مَو ل ۔ وِیا)یا کسی مِیر( یعنی سیِّد) کو مِیروا بروجہ تَحقیر(یعنی حَقارت سے ) کہے کافر ہے ۔
’’ آج کل کے سیِّد بس ایسے ہی ہوتے ہیں ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : بعض لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ آج کل کے سیِّدبس ایسے ہی( یعنی بُرے ) ہوتے ہیں ۔ ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب : یہ قول بَہُت ہی بُرا ہے اگر اِس جُملے سے یہ مُراد ہے کہ اُن کو اہلبیت تسلیم کرنے کے باوُجُود بطورِ سیِّد ان کی توہین کر رہے ہیں تو یہ کُفر ہے ۔ ’’ سیِّد ‘‘ کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشِش کیجئے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ سیِّدحَسَنیَنِ کریمین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما کی اولاد کو کہتے ہیں ۔ ‘‘ (ماخوذ از فتاوٰی رضویہ ج۱۳ ص۳۶۱)
عبداللّٰہ بن مبارَک اور ایک سیِّد صاحِب کی حِکایت
حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارَک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بار کہیں تشریف لئے جا رہے تھے کہ اِثنائے راہ ایک سیِّد صاحِب مل گئے اور کہنے لگے : آپ کے بھی کیا خوب ٹھاٹھ باٹھ ہیں اور ایک میں بھی ہوں کہ سیِّد ہونے کے باوُجُود مجھے کوئی نہیں پوچھتا ! آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا : میں نے آپ کے جدِّ اعلیٰ مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّتوں کو اپنایا تو خوب عزّت پائی مگر آپ نے اپنے نانا جان کی سنّتوں کونہ اپنایا تو بے عملی کے سبب پیچھے رہ گئے ! سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارَک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ رات جب سوئے تو خواب میں جنابِ رسالت مَآب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زِیارت ہوئی، چہرۂ انور پر ناراضگی کے آثار تھے ، کچھ اس طرح فرمایا : تم نے میری آل کو بے عملی کا طَعنہ کیوں دیا ! آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بے قرار ہو کر بیدار ہو گئے ۔ صبح مُعافی مانگنے کیلئے اُس سیِّد صاحِب کی تلاش میں روانہ ہوئے ، موصوف بھی انہیں کو ڈھونڈ رہے تھے ۔ دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ سیِّدنا عبداللہ بن مبار ک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنا خواب سنایا ۔ سیِّد صاحِب نے سُن کر کہا : مجھے بھی رات میرے نانا جان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب میں تشریف لا کر کچھ اس طرح ارشاد فرمایا : تمہارے اعمال اچّھے ہوتے تو عبداللہ بن مبارک تمہاری کیوں بے ادَبی کرتے ! حضرت سیِّدنا عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بصد ندامت سیِّد صاحِب سے معافی مانگی اور سیِّد صاحِب نے بھی گناہوں سے توبہ کر کے نیکیاں کرنے کی اچّھی اچّھی نیّتیں کیں ۔ (ماخوذاز تذکرۃ الاولیاء جزء اول ص ۱۷۰)اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 10 صَفْحَہ 105 پر ساداتِ کرام کے فضائل بیان کرتے ہوئے نَقل کرتے ہیں : ابنِ عساکِر امیرُالْمُؤمِنِین حضرت علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تعالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے راوی، رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : جو میرے اہلِ بَیت میں سے کسی کے ساتھ اچّھا سُلوک کرے گا، میں روزِ قِیامت اِس کا صِلہ اُسے عطا فرماؤں گا ۔ (اَ لْجامِعُ الصَّغِیر ص ۵۳۳ حدیث ۸۸۲۱)خطیب بغدادی امیر المومنین عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی ، رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : جو شخص اولادِ عبدُ المُطَّلِب میں سے کسی کے ساتھ دنیا میں نیکی(بھلائی) کرے اُس کا صِلہ دینا مجھ پر لازِم ہے جب وہ روزِ قِیامت مجھ سے ملے گا ۔ (تاریخ بغداد ج۱۰ ص۱۰۲)
ہم کو سارے سیِّدوں سے پیار ہے
ان شاء اللہ اپنا بیڑا پار ہے
ساداتِ کرام کی تعظیم کی اصل وجہ
سُوال : ساداتِ کرام کی تعظیم کی اصل وجہ کیاہے ؟
جواب : تعظیم کی اصل وجہ یہی ہے کہ سادات حضرات رسولِ کائنات ، شہنشاہِ موجودات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسمِ اطہر کا جُزء ( یعنی بدنِ مُنَوّرکا ٹکڑا، حصّہ) ہیں ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 22 صَفْحَہ 423 پرفرماتے ہیں : سیِّد سنّی المذہب کی تعظیم لازِم ہے اگر چِہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں ، اُن اعمال کے سبب اُس سے تَنَفُّر نہ کیا ( یعنی نفر ت نہ کی ) جائے ، نفسِ اعمال سے