کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

کی آنکھیں   ان لَعنتی ناپاکوں  کے دیکھنے سے بِاذنِہٖ تعالیٰ محفوظ رہیں  ۔ فَاللّٰهُ خَیْرٌ حٰفِظًا۪-وَّ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۶۴) (ترجَمۂ کنزالایمان : تواللہ سب سے بہتر نگہبان ہے اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کرمہربان ۔ پ۱۳ یوسف ۶۴ )

اگر مُرُوَّت میں   کفریات کمپوز کرنے پڑ جائیں  تو ؟

  سُوال :  اگر نوکری ہو اوردین کے خلاف لکھی ہوئی باتوں   والی کتاب یا مضمون کی مُرُوَّت میں   کمپوزنگ کرنی پڑ جائے تو ؟

جواب :  چاہے نوکری چھوڑنی پڑ جائے مگر ایسی کمپوزنگ جائز نہیں   ہو سکتی ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں   : اَلْقَلَمُ اَحَدُ اللِّسَانَیْن (یعنی قلم بھی زَبان کا ہی حکم رکھتی ہے )جو زَبان سے کہنے کے اَحکام ہیں   وُہی قلم پر ۔  اور ایسی اُجرت حرام، اِس کی اشاعت حرا م اور ایسی مُرُوَّت فی النّار ۔ ہاں   جب اِعتِقاداً نہ ہو ( یعنی اُن دین کے خِلاف باتوں   کا عقیدہ نہ ہو) تو کُفرنہیں   ۔ (اور اگر جائز سمجھتا ہو تو کفر ہے ) وَاللّٰہ تعالٰی اَعلمُ ۔ (فتاوٰی رضویہ  ج ۱۴ ص ۶۰۷ )اس سے کلماتِ کُفر سے بھر پور آرٹیکلز اور بدمذہبوں   کے مضامین والے اخبارات، ماہنامے اور بد عقیدہ لوگوں   کی کُتُب بیچنے والے بھی درسِ عبرت حاصِل کریں   ۔

 

افعالِ کُفر کی 4 مِثالیں 

{1}جو مجوسیوں   کی مخصوص ٹوپی پہنے یا{2} زُنَّار باندھے بلکہ {3}  کوئی اپنی کمر میں   یوں   ہی رسّی باندھ کر کہے کہ یہ زُنّار ہے ، اس کے یہ اَفعال کُفر ہیں  ۔ (مِنَحُ الرَّوْض ص ۴۹۶ ۔ ۴۹۷ )

{4}جس نے سر پر مجوسیوں   کی مخصوص ٹوپی رکھ کر کہا :   ’’ دل سیدھا ہونا چاہیئے  ‘‘  یہ قول کفر ہے کیونکہ کہنے والے نے ظاہِرِ شریعت کا انکار کیا ۔ (ایضاً ص ۴۹۸ )

 سُوال :  سنا ہے ،  ’’  مایوسی کُفر ہے  ‘‘  اِس سے کیا مُراد ہے ؟مایوسی کے کفر ہونے کی صورتیں   بھی بتا دیجئے ۔

جواب : بعض اَوقاتمختَلِف آفات، دُنیاوی مُعامَلات یا بیماری کے مُعالَجات و اَخراجا ت وغیرہ کے سلسلے میں  آدَمی ہمّت ہار کرما یوس ہو جاتا ہے اِس طرح کی مایوسی کُفر نہیں   ۔ رحمت سے مایوسی کے کفر ہونے کی صورتیں   یہ ہیں   : اللہ  عَزَّوَجَلَّ کو قادِر نہ سمجھے یا اللہ تعالیٰ کو عالِم نہ سمجھے یا اللہ تعالیٰ کو بخیل سمجھے ۔

رحمت کی اُمّید اور ناراضگی کا خوف

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  اللّٰہُ غفّارعَزَّوَجَلجب بخشنے پر آتا ہے  تو بڑے سے بڑے گنہگار کو بے حساب بخش دیتا ہے اور جب گرِفت فرمانا چاہتا ہے تو بظاہِر چھوٹے سے گناہ پر بھی پکڑ لیتا ہے ۔ لہٰذا اللّٰہُ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت سے ہرگز ہرگز مایوس بھی نہیں   ہونا چاہئے اور اُس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف بھی نہیں   رہنا چاہئے ۔ ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المُبینڈھیروں  ڈھیر نیکیاں   کرنے کے باوُجُود ہمیشہ اس بات سے خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں   اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  ناراض نہ ہو جائے ۔ چُنانچِہ اِس ضِمن میں   تَنبِیْہُ المُغْتَرِّین صَفْحَہ 168 تا 169 پر سے سات حِکایات مُلاحَظہ فرمایئے :

(1) تو میں   راکھ بننا پسند کروں 

            امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عُمر بن خَطاّب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں   : اگر مجھے جنَّت اور جہنَّم کے درمِیان کھڑا کردیں   اور اختِیار دیں   کہ یا تو راکھ بن جاؤں   یا پھر اُس وقت تک انتِظار کروں   کہ مجھے اپنا ٹھکانہ معلوم ہو جائے  ۔ تو میں   راکھ بننے کو ترجیح دوں   گا ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

(2) کہیں   مجھ پر آگ نہ برسے  !

            حضرتِ سیِّدُناحَمّادعَلَیہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الجوّاد ہمیشہ اپنے قدموں   پر تیّار ہو کر بیٹھتے ۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے اِس کی وجہ پوچھی جاتی تو فرماتے  : مطمئِن ہو کر وہ شخص بیٹھتا ہے جو  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے عذاب سے بے خوف ہو اور  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !  رات ہو یا دن، مجھے ہر وَقت یہ خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں   آسمان سے آگ برس کر مجھے جَلا نہ دے ۔  اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

(3) کہیں   سب سے پہلے مجھے دوزخ میں   نہ ڈالدیا جائے

            حضرتِ سیِّدُناابو سُلیمان دارانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی فرماتے  ہیں  : خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم  ! مجھے اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ قِیامت کے دن چِہرے کے بل گھسیٹ کر جہنَّم کی طرف لے جایاجانے والا سب سے پہلا آدمی کہیں   میں  نہ ہو جاؤں   ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔   اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

(4)جہنَّم سے اَمان ملتی ہو تو دنیا کی آگ میں   جل جانا منظور ہے

          حضرتِ سیِّدُناعطاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کافرمانِ خَشِیَّت نشان ہے :  اگر آگ جلا کر کہا جائے کہ جو شخص اپنے آپ کو اس میں   ڈالے گا وہ راکھ ہو جائے گا اور بڑی آگ (یعنی جہنَّم) میں   نہیں   جائے گا ۔  تو میں   اپنے آپ کو اس آگ میں  ڈال دُوں   ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت