سُوال : بعض اوقات کھانے کے لئے جاتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے : ’’ پیٹ پُوجا کرنے جا رہا ہوں ۔ ‘‘ کیا یہ کفر نہیں ؟
جواب : کفر نہیں البتّہ ایسا کہنے سے بچنا چاہیے ۔
اللہ کی دی ہوئی توفیق ہی سے سب کچھ ہوتا ہے
سُوال : کیا یہ بات کُفْر ہے کہ انسان کتنی ہی کوشِش کرلے جب تک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے اِصلاح کی توفیق اور گُناہ سے بچنے کی طاقت نہ ملے اُس وقت تک کچھ نہیں ہوتا ؟
جواب : مذکورہ کلام کُفْر نہیں ۔ عُموماً ہر مسلمان یہ پڑھتا ہے ، ’’ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ ‘‘ ترجَمہ : ’’ گُناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قُوَّت اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف سے ہے ۔ ‘‘ البتّہ چُونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے مقدر میں کیا لکھا ہوا ہے لہٰذا نیکی کی کوشش کرنا اور گُناہوں سے بچنا ہم پر لازِم ہے کہ اس بات کا ہمیں حُکْم دیا گیا ہے ۔
جو جیسا کرنے والا تھا ویسا لکھ دیا گیا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اس شیطانی وسوسہ پر ہرگز دھیان نہ دیا جائے کہ ہم اب مقدَّر کے ہاتھوں لاچار ہیں ، ہمارا اپنا کوئی قصور ہی نہیں بَس ہم ہر وہ برا بھلا کام کرنے کے پابند ہیں جو لکھ دیا گیا ہے ۔ حالانکہ ہرگز ایسا نہیں بلکہ جو جیسا کرنے والا تھا، اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے علم سے جانا اور اس کیلئے وَیسا لکھا اُس عَزَّوَجَلَّ کے جاننے اور لکھنے نے کسی کو مجبور نہیں کیا ۔ اِس بات کو اِس عام فہم مِثال سے سمجھنے کی کوشِش فرمایئے جیسا کہ آ ج کل قانون کے مطابِق غِذاؤں اور دواؤں وغیروں کے پیکٹوں پر انتہائی تاریخ(EXP.DATE) لکھی جاتی ہے ۔ بچّہ بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ کمپنی والوں کوچُونکہ تجرِبہ ہوتا ہے کہ یہ چیز فُلاں تاریخ تک خراب ہو جائیگی، اِس لئے لکھ دیتے ہیں ، یقینا کمپنی کے (EXP.DATE)لکھنے نے اُس چیز کو خراب ہونے پرمجبور نہیں کیا، اگر وہ نہ لکھتے تب بھی اُس چیز کو اپنی مُدّت پر خراب ہونا ہی تھا ۔
تقدیر کے بارے میں ایک اہم فتوٰی
اِس ضمن میں فتاوٰی رضویہ جلد 29صَفْحَہ284تا285سے ایک سُوال جواب پیش کیا جاتا ہے ۔ سُوال : زید کہتا ہے جو ہُوا اور ہو گا سب خدا کے حکم سے ہی ہوا اور ہو گا پھر بندہ سے کیوں گرِفت ہے اور اس کو کیوں سزا کامُرتکِب ٹھہرایا گیا ؟ اس نے کو ن سا کام ایسا کیا جو مُستِحق عذاب کا ہوا ؟ جو کچھ اُس(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ ) نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وُہی ہوتا ہے کیونکہ قراٰنِ پاک سے ثابِت ہو رہا ہے کہ بِلا حکم اُس کے ایک ذَرّہ نہیں ہلتا پھر بندے نے کون سا اپنے اِختیار سے وہ کام کیا جو دوزخی ہوا یا کافِر یا فاسِق ۔ جو بُرے کام تقدیر میں لکھے ہوں گے تو بُرے کام کرے گا اور بھلے لکھے ہونگے تو بھلے ۔ بَہَر حال تقدیر کا تابِع ہے پھر کیوں ا س کو مجرِم بنایا جاتا ہے ؟ چوری کرنا، زِنا کرنا، قتل کرناوغیرہ وغیرہ جو بندہ کی تقدیر میں لکھ دئے ہیں وُہی کرنا ہے ایسے ہی نیک کام کرنا ہے ۔ الجواب : ’’ زید گمراہ بے دین ہے اُسے کوئی جُوتا مارے تو کیوں ناراض ہوتا ہے ؟ یہ بھی تو تقدیر میں تھا ۔ اس کا کوئی مال دبا ئے تو کیوں بگڑتا ہے ؟ یہ بھی تقدیر میں تھا ۔ یہ شیطانی فِعلوں کا دھوکہ ہے کہ جیسا لکھ دیا ایسا ہمیں کرنا پڑتا ہے (حالانکہ ہرگز ایسا نہیں ) بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے اُس(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ ) نے اپنے علم سے جان کر وُہی لکھا ہے ۔ ‘‘
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ بہارِ شریعت ‘‘ جلد اوّل صَفْحَہ 19پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : بُرا کام کر کے تقدیر کی طرف نسبت کرنا اور مشیتِ (مَشِی ۔ یتِ)الہٰی کے حوالے کرنا بَہُت بُری بات ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچّھا کا م کرے اسے مِنجانِبِ اللہ(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے ) کہے ، اور جو بُرائی سر زد ہو اُس کو شامَتِ نفس تصوُّر کرے ۔
تقدیر کے بارے میں بحث کرنا کیسا ؟
سُوال : سُنا ہے تقدیر کے مُعاملہ میں بحث کرنا منع ہے !
جواب : جی ہاں منع ہے ۔ بہارِ شریعت جلد اوّلصَفْحَہ18 پرہے : قَضا و قَدَر(تقدیر) کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے ، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ہَلاکت ہے ، صِدّیق و فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما اِس مسئلے (مَسْ ۔ ء ۔ لے ) میں بحث کرنے سے مَنع فرمائے گئے ۔
ماوشُما(ہم اور آپ) کس گنتی میں ۔ ۔ ۔ ! اتنا سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے آدَمی کو مِثلِ پتّھر اور دیگر جَمادات (یعنی بے جان چیزوں ) کے بے حِس وحَرَکت نہیں پیداکیا ، بلکہ اس کو ایک نَوعِ اِختیار(ایک طرح کا اختیار) دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے ، چاہے نہ کرے ، اور اس کے ساتھ ہی عَقل بھی دی ہے کہ بھلے بُرے ، نَفْع نقصان کو پہچان سکے ، اور ہر قسم کے سامان اور اَسباب مُہَیّا کر دیئے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مُہَیّا ہو جاتے ہیں اور اِسی بِنا پر اُس پر مُواَخَذہ(پوچھ گچھ) ہے ۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مُختار(بااختیار) سمجھنا ، دونوں گمراہی ہیں ۔
سُوال : اگر کوئی قسم کھائے کہ میں فُلاں کام کروں تو کافِر ہو جاؤں ۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر اس قَسَم کے کھانے والے کا یہ ذِہن بنا ہوا ہے کہ میں وہ کام کروں گا تو واقِعی کافِر ہو جاؤں گا تو ایسی صورت میں وہ اُس کام کے کرنے کی صورت میں کافِر ہو جائے گا ورنہقَسَم توڑنے پر کافِر تو نہ ہو گا مگر گنہگار ہو گا او راُس پر قَسَم کا کفّارہ دینا واجِب ہو جائے گا ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۳ ص ۵۷۸مُلخصاً )
صرف ’’ ایک لَفْظ ‘‘ بربادیٔ آخِرت کیلئے کافی ہے