کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

زَبان کی بے جا بک بک بربادیٔ ایمان کا سبب بن سکتی ہے ۔ بَہَرحال مسلمان کا ایمان برباد ہوجانے کا ہر امکان موجود ہے ۔  ہم اللّٰہُ رَحمٰنعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں   ایمان کی حفاظت کی گڑ گڑا کر التِجاء کرتے ہیں  ۔  ؎

یا الہٰی مِرا ایمان سلامت رکھنا

نفس وشیطان سے مجھ کو بحفاظت رکھنا

                                   اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

نابینا کو بد نِگاہی سے کوئی نہیں   روکتا

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یاد رکھئے  ! ہمیشہ مَنع اُسی کام سے کیا جاتا ہے جس کا وُقوع( یعنی واقِع ہونا)ممکن ہو ۔ نابینا کو کوئی نہیں   کہتا کہ بدنِگاہی مت کرو کیوں   کہ اِس سے بدنِگاہی کا واقِع ہونا ممکن ہی نہیں   ۔ بِینا (یعنی آنکھ والے ) ہی کو بد نگاہی سے روکااور اس کے  عذابات سے ڈرایا جاتا ہے  ۔ افسوس ! یہ بھی شیطان کا ایک بہت بڑا اور بُراوار ہے کہ اس نے کثیر مسلمانوں   کو نہ صرف سَلْبِ ایمان کے خوف سے دُور رکھا ہوا ہے بلکہ اُنہیں   یہاں   تک باوَر(یعنی یقین) کروادیا ہے کہ بس ایک دَفعہ (دَف ۔ عَہ) ایمان لانا ہی کافی ہے پھرجس کا جو دِل چاہے کرے اب وہ کسی بھی طرح اسلام سے باہَر نہیں   ہو سکتا  ! یاد رکھئے ! یہ سوچ آخِرت کو برباد کرنے والی سوچ ہے ۔  مسلمان کو ہر آن بربادیِٔ ایمان کے خوف سے لرزاں   وترساں   رہنا چاہئے ۔   ’’ بخاری شریف ‘‘  جلد اوّل صَفْحَہ 30 پر ہے :  حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القویفرماتے ہیں  :  ’’  نفاق سے مومن ہی ڈرتا ہے جبکہ منافق ہی اس سے بے خوف ہوتا ہے ۔  ‘‘ اس قول کا مطلب و منشا یہ ہے کہ مومِن کو ہمیشہ خلافِ شرع اُمور اور کفر وشرک سے پناہ مانگتے رہنا چاہئے اور بحضور ربُّ العالمینعَزَّوَجَلَّ   حُسنِ خاتمہ کی دعا کرتے رہنا چاہئے ۔  ( ماخوذ ازفیوض الباری شرح بخاری ج۱ ص ۲۵۴)

ہر مُلک میں  جَرائم  کی سزائیں   ہیں 

            دُنیا کے تقریباً تمام مُلکوں   اور مختلف برادریوں   نے چھوٹے بڑے  جَرائم کاتعین اوران کی دُنیوی سزائیں   مقرَّر کر رکھی ہیں   ۔ چھوٹا جُرم کرنے پر چھوٹی سزا اوربڑا جرم کرنے پر بڑی سزا ملتی ہے ۔ مگرکوئی با شَعُورآدمی کسی جُرم کی سزا کو ظلم وزِیادَتی نہیں   سمجھتا بلکہ جُرم کی سزا نہ دینے کو ہی ناپسند کرتا ہے ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ  شَریعتِ مُطَہَّرہ(مُ ۔ طَہ ۔ ہَرہ) نے ہمیں   عدل و انصاف پرمَبنی ایک انتِہائی مضبوط نظام بخشا ہے  ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ  اورمصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی اطاعت کو نیکی اور ان کی نا فرمانی ومعصیّت کو گناہ قرار دیا ہے اور ہر گناہ کی سزا بھی مقرَّر کی گئی ہے ۔ چُنانچِہ بعض گناہ ایسے ہیں   جن میں   مُلوَّث (مُ ۔ لَوْ ۔ وَثْ) ہونے والے کو دنیا میں   بھی سزا دی جاتی ہے جیسے چور، زانی ، قاتِل وغیرہ ۔ مگرچور ، زانی وغیرہ دائرۂ اسلام سے خارِج نہیں   ہوتے ۔ لیکن بعض جَرائم ایسے ہیں   کہ جن کا کرنے والا مسلمان نہیں   رہتا ، کافِر ہوجاتا ہے مَثَلاً رَمَضانُ المُبارَک کے روزوں  یا یومِیہ پانچ نَمازوں   کی فَرضِیَّت کا انکار کرنے والا وغیرھا ۔

 غدّار کو کوئی بھی مُحبِّ وطن نہیں   کہہ سکتا

          دنیاکے مختلف مُمالِک نے حُرمت و تقدُّس اوراَخلاق و آداب کااپنا اپنا ایک مِعیار مقرَّر کر رکھا ہے  ۔ اورسادہ سی عقل میں   بھی یہ بات آجانے والی ہے کہ مُلک کی جو چیز ، جو شخص ، جو ادارہ جس قَدَر اَہم ہوتا ہے اسے ویسی ہی قَدر ومَنزِلت دی جاتی ہے اور اس کے تقدُّس کی پاسداری ہر ایک کی قانونی ذِمَّہ داری ہوتی ہے ۔ مَثَلاً کسی ملک کا باشِندہ اپنے ملک کے جھنڈے یا قانون یا افواج وغیرہ میں   سے کسی کی بے حُرمتی کرے تو اُسے غدّار قرار دے کر سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے ۔ غدّاری کا الزام ثابِت ہوجانے پر اگرچِہ کوئی لاکھ حُبُّ الوطنی کا دعوٰی کرتا رہے کوئی اسے مُحِبِّ و طن نہیں   کہے گا ، اُسے غدّار ہی سمجھا جائے گا ۔  بِلاتَشْبِیْہ(بِلا ۔ تَشْ ۔ بِیْہ) اسلام میں   بھی حُرمت وتقدُّس کی پاسداری کا ایک مِعیار ہے ۔ چُنانچِہ اگر کوئی اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمین عَزَّوَجَلَّ کی توہین کرے یا  انبِیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی گستاخی کا مُرتکِب ہو تو ایسے شخص کو دینِ اسلام کا باغی قرار دے کر مسلمانوں   کی فِہرِس سے خارِج کر کے کافِرشُمار کیا جاتا ہے اگرچِہ وہ لاکھ دعویِٔ ایمانی کرے اس کے دعوے کا کوئی اِعتِبار نہیں   کیا جاتا  ۔ ذرا سوچئے  ! کیا مزرا غلام احمد قادِیانی کلمہ گو نہیں   تھا ؟یقینا تھامگر جب اُس سے کفرِیات صادِر ہوئے تو مفتیانِ اسلام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام نے اسے کافِر و مُرتد قراردیا ۔ اِسی طرح بدنام دشمنِ اسلام سلمان رُشدی کیااسلام لانے کے بعد مرتد نہیں   ہوا ؟ کیا رُسوائے زمانہ گستاخِ رسول تسلیمہ نسرین مسلمان گھرانے میں   پیدا نہیں   ہوئی تھی ؟ ایسے ہی لوگوں   کے بارے میں  اللّٰہُ رَبُّ العباد قرآنِ پاک پارہ 10  سورۃُ التَّوبہ آیت نمبر74میں   ارشاد فرماتا ہے  :

وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ (پ۱۰التوبہ ۷۴)

ترجَمۂ کنزالایمان : اور بے شک ضَرور انہوں   نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں   آکر کافر ہو گئے ۔

قطعی کفر کے صُدور کے بعد کوئی آدمی مسلمان نہیں   رہ سکتا

          اے بھولے بھالے اسلامی بھائیو ! شیطانی وسوسوں   کو سمجھنے کی ضَرورت ہے ، کیااللّٰہُالمُبینعَزَّوَجَلَّ کی صریح توہین ، اُس کے رسولِ مقبول محمدٌرَسُوْلُ اللہ  عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی شان میں   واضِح گستاخی اور ضَروریاتِ دین کے انکارکو بھی بھلا کوئی مسلمان اچّھا کہہ سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں   کہہ سکتا، جوکہے گا، وہ بھی اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔  کفر کو کفر ہی کہا جائے گا، قَطعی کُفر کے صُدورکے بعد ہرگز ایمان سلامت نہیں   رہ سکتا ۔  

 

Index