حرام کو حلال کہنے کے بارے میں سُوال جواب
پرائے مال کو حلال سمجھنا کیسا ؟
سُوال : بعض مَن چلے پرایا مال ہڑپ کر جاتے اور پھر چوری اور سینہ زوری کے مِصداق یوں کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’ اپنے کو سب حلال ہے ۔ ‘‘ ایسوں کیلئے کیا حُکم ہے ؟
جواب : بِغیر اجازت ِشَرْعی کسی کا مال کھاجانے کو حلال کہنا کُفرہے ۔ (ماخوذازمنح الروض۴۸۵)
حرام فِعل سے قَبل بِسم اللّٰہ پڑھنا کیسا ؟
سُوال : جیب کترے نے بِسم اللہ پڑھ کر کسی کی جیب کاٹی ہو تو کیاحکم ہے ؟
جواب : ایسا کرنا کفر ہے ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام فرماتے ہیں : حرامِ قَطعی فِعل کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا کُفر ہے ۔ (عالَمگیری ج۲ص۲۷۳)
حرام مال سے خیرات کرنا کیسا ؟
سُوال : سُود یا رشوت یا ، جُوا یاچوری کی رقم سے بہ نیّتِ ثواب خیرات کرنا کیسا ؟
جواب : میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے فرمانِ عالیشان کا خُلاصہ ہے : جس نے مالِ حرام کو اپنا ذاتی مال تصوُّر کر کے بَرِضاء و رغبت ثواب کی نیّت سے خیرات کیا اُس کو ہرگز ثواب نہیں ملیگا بلکہ اس کی بعض صورَتوں کو فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام نے کفر قرار دیا ہے ۔ اور اگر اُس حرام مال کو حرام ہی سمجھا، اُس پر نادِم ہوا ، توبہ بھی کی مگر شریعت کے حکم کے مطابِق اُس کے مالِکان یا وُرثا ء تک پہنچانا ممکن نہ رہا اور چُونکہ ایسی صورت میں اب اُس کو خیرات کر دینے کا شرعاً حکم ہے لہٰذا اسی حکمِ شرعی کی بجا آوری کی نیَّت سے اُس نے اس مالِ حرام کو خیرات کر دیا ۔ تو اگر چِہ اُس مال کی خیرات کا ثواب نہ ملیگا مگر خیرات کر دینے کے ’’ حکمِ شرعی ‘‘ پر عمل کرنے کے ثواب کا حقدار ہو گا بلکہ اُس کا یہ فعل اُس کی توبہ کی تکمیل کا باعِث ہے ۔ ( اس کی تفصیلی معلومات کیلئے فتاوٰی رضویہ جلد 19 صَفْحَہ 656تا 661 ملاحَظہ فرما یئے )
خیرات میں حرام مال لیکر فقیر کا دعا دینا کیسا ؟
سُوال : کسی نے فقیر کو حرامِ قَطعی مال خیرات کیا، اِس پر فقیر کا دعاء میں جَزاکَ اللّٰہُ خیراً (یعنیاللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے بہترین جزا دے ) کہنا کیسا ؟
جواب : اگرفقیر کو خیرات میں ملنے والے مال کے حرامِ قَطعیہونے کا علم ہے اور جَزاکَ اللّٰہُ خیراً کہتے وقت اِس کے دعائیہ معنیٰ بھی سمجھتا ہیتو اُس نے کفر کیا ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السلام فرماتے ہیں : حرامِ قَطعی مال صَدَقہ کرکے ثواب کی اُمّید رکھنا کفر ، فقیر کا اِسے حرامِ قَطعیجانتے ہوئے دُعا دینا کفر ، اور دینے والے کا اس کی دعا پر آمین کہنا بھی کفرہے ۔ ( مَجْمَعُ الْاَنْہُر ج۲ ص ۵۱۲)
’’ اللہ نے میری روزی ہی حرام میں رکھی ہے ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : ملاوٹ والا مال دھوکے سے بیچنے والے سے کہا گیا کہ آپ اِس طرح نہ کیا کریں ۔ تو جواب دیا : ’’ کیا کروں ! اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے میری روزی اِسی میں رکھی ہے ۔ ‘‘ کہیں یہ کلمۂ کفر تو نہیں ؟
جواب : اگرقائل اپنے کام کو حرام ہی سمجھتا ہے توچونکہ وہ اپنے اس ناجائز کام کیلئے تقدیر کو آڑ بناتا ہے اس لئے اس کا اس طرح کہنا سخت بے ادَبی اور بے دینی کی بات ہے ، یہ جُملہ قائل کے مُنہ پَھٹ ہونے اور اللّٰہُ توّابعَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے بے خوف ہونے پر دالّ(علامت) ہے ۔ اگر اسے صحیح معنوں میں خوفِ خدا ہوتا ہر گز اس کے مُنہ سے ایسا جُملہ نہ نکلتا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے عقل دی ہے ، خَیر وشَراور حلال و حرام کو جُد ا و ممتاز بیان فرمادیاگیا ہے ۔ بندے کو جو ایک نَوعِ اختیار دی گئی ہے اُسے بَرُوئے کار لاتے ہوئے کوئی تو اچّھے کام اپناتا ہے ، اور کوئی اپنے آپ کوبُرائی کے عمیق(یعنی گہرے ) گڑھے میں گراتا ہے ، کوئی حلال روزی کماتا ہے توکوئی حرام کھاتا کِھلاتا ہے ۔ بروزِقِیامت اعمال کا حساب ہونا ہے ، نیکی کی جَزا ملے گی اوربُرائی کی سزا ۔ قائل پر اپنے اِس جملے سے توبہ ضَروری ہے اور اسے حرام سے بچنا فرض ہے ۔
ہُجوم میں رہ کر د ین کی حِفاظت کی دُ شواری
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! حرام مال کی نُحُوستیں بے شمار ہیں ، ہمیشہ ایمان کی حفاظت کی فکر کرتے رہنا چاہئے ، نہ جانے کون سی ایسی بھول ہوجائے کہمَعاذَاللّٰہ ایمان برباد ہو جائے ۔ ایمان کی حفاظت اور رِزقِ حلال کی فراہمی کی دشواری کیمُتَعَلِّق ایک عبرت انگیز حدیث مُلاحَظہ فرمایئے ۔ چُنانچِہ سرکارِ دو عالم، نُورِ مجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسول مُحتَشَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاارشادِ حقیقت بُنیاد ہے :
لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ کسی دیندار کادین محفوظ نہ رہے گا سوائے اس شخص کے جو اپنے دین کو لے کر(یعنی اُس کی حفاظت کی خاطر) ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ اور ایک سوراخ(یعنی غار) سے دوسرے سوراخ(یعنی غار) کی طرف بھاگ جائے ۔ اُس وقت مَعِیشت کاحُصول اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ناراض کئے بغیر نہ ہو گا ۔ پھر جب یہ صورتِ حال ہو گی تو آدَمی اپنے بیوی بچوں کے ہاتھوں ہلاک ہوگا اگر اس کے بیوی بچے نہ ہوں گے تو والِدین کے ہاتھوں ہلاک ہوگا اور اگر اس کے والِدین بھی نہ ہوں گے تو اس کی ہلاکت رشتہ داروں یا پڑوسیوں کے ہاتھوں ہو گی ۔ صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی : یا رسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! یہ کیسے ہو گا ؟ ۔