کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

جسے چاہے امتحان میں   مُبتلا کر کے صَبْر کی توفیق عطا فرما کر انعام و اِکرام کی بارِشیں   فرمائے ۔  مومِنِ کامِل وُہی ہے جو ہر حال میں   ربِّ ذوالجلال عَزَّوَجَلَّ کا شگر گزار بندہ بن کر رہے ۔ مُصیبتوں   کی وجہ سے  اللہ  عَزَّوَجَلَّ   پر اعتراض کر کے خود کو ہمیشہ کیلئے جہنَّم کے حوالے کر دینے والا شخص بَہُت ہی بڑا بد نصیب ہے ۔  ہر مسلمان کو امتحان کے لئے تیّار رَہنا چاہئے ، خدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا پارہ2 سُورَۃُالبَقَرہ کی آیت نمبر214  میں  فرمانِ عبرت نِشان ہے :

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-

تَرْجَمَۂ کنزالایمان : کیا اِس گُمان میں   ہوکہ جنَّت میں   چلے جاؤگے اور ابھی تم پر اَگلوں   کی سی رُوْدَاد  (حالت)نہ آئی ۔

کنگھیوں   سے گوشت نوچے گئے

             صدرُ الاَفاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْہَادِی خَزَائِنُ الْعِرْفَان صَفحَہ53 پر مُنْدَرِجَۂ بالا آیتِ کریمہ کے تَحت فرماتے ہیں  : اور جیسی سختیاں   اُن( یعنی اگلے مسلمانوں   ) پر گزر چکیں   ابھی تک تمہیں   پیش نہ آئیں   ۔ یہ آیت غَزوَۂ اَحزاب کیمُتَعَلِّق  نازِل ہوئی جہاں   مسلمانوں   کو سردی اور بھوک وغیرہ کی سخت تکلیفیں   پہنچی تھیں    ۔ اس میں  انہیں   صَبْر کی تلقین فرمائی گئی اور بتایا گیا کہ راہ ِخدا (عَزَّوَجَلَّ) میں   تکالیف برداشت کرناقدیم سے خاصانِ خدا رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰیکا معمول رہا ہے ، ابھی تو تمہیں   پہلوں   کی سی تکلیفیں   پہنچی بھی نہیں   ۔ بخاری شریف  میں   حضرت سیِّدُنا خَبّاب بن اَرَت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حُضُور سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سایۂ کعبہ میں   اپنی چادَر مبارَک سے تکیہ کئے تشریف فرما تھے ۔  ہم نے حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے عرض کی کہ حُضُور ہمارے لئے کیوں  دُعا نہیں   فرماتے ؟ہماری کیوں   مدد نہیں   کرتے ؟ فرمایا :  تم سے پہلے لوگ گرِفتار کئے جاتے تھے ، زمین میں   گڑھا کھود کر اُس میں   دبادیئے جاتے تھے ، آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کردیئے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھیوں   سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے اور ان میں   سے کوئی مصیبت انہیں   ان کے دین سے روک نہ سکتی تھی ۔   (بُخارِی ج۴ص۳۸۶حدیث۶۹۴۳)

                  گناھوں   کے سبب ایمان برباد ہو گیا

            حضرت ِسیِّدُنا سُفیان ثَوریرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اور حضرتِ سیِّدُنا شیبان راعیرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  دونوں   ایک جگہ اِکٹھّے ہوئے ۔ سیِّدُنا سُفیان ثَوریرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ساری رات روتے رہے ۔  سیِّدُنا شیبان راعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے سببِ گِریہ دریافت کیا تو فرمایا : مجھے بُرے خاتِمے کاخوف رُلا رہا ہے  ۔ آہ  ! میں   نے ایک شیخ سے چالیس سال علم حاصِل کیا ۔ اُس نے ساٹھ سال تک مسجدُ الحرام زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً میں   عبادت کی مگر اُسکا خاتمہ کُفر پر ہوا ۔  سیِّدُنا شیبان راعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا : اے سُفیان  ! وہ اس کے گناہوں   کی شامت تھی ( یعنی گناہوں   کے سبب اُس کا ایمان برباد ہوگیا) آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ   کی نافرمانی ہرگز مت کرنا ۔   (سبع سنابل ص۳۴ ) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  

 ’’ اللہ نے مصیبتوں   کے پہاڑ توڑے ہیں   ‘‘  کہنا

سُوال :  یہ جُملہ کہنا کیسا کہ  ’’  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ پر مُصیبتوں   کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں   ؟ ‘‘

جواب :  اس جملہ میں    اعتِراض  کا پہلو نُمایاں   ہے اِس لئے کُفْر ہے  ۔

 ’’ اللہ کے خَزانے میں   میرے لئے کچھ نہیں    ‘‘ کہنا کیسا ؟

سُوال : کسی نے کہا :  ’’ شایداللہ عَزَّوَجَلَّکے خزانے میں  میرے لئے کچھ بھی نہیں   ہے ، میری دُنیاوی خواہِشات اس نے کبھی پوری نہیں   کیں  ، زندَگی بھر میری کوئی دُعا قَبول نہیں   ہو ئی، جس کسی سے مَحَبَّت کی وہ دُور چلاگیا، میرا ہرخواب ٹوٹا، میرے تمام اَرْمان کُچلے گئے ، اب آپ ہی بتائیں   میں   اللہ  عَزَّوَجَلَّ پر کیسے ایمان لاؤں  ؟ ‘‘ اس کے بارے میں   کیا حکْم ہے ؟

 جواب : مذکورہ کلمات ، ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّپر شدید اعتراضات سے پُر اور کفریات سے بھر پور ہیں   نیز قائل نے اپنے ایمان سے خود ہی اِنکار بھی کر دیا ہے ۔ یہ کلمات کہنے والاکافِر ومُرتَد ہے ۔

مُصیبت چُھپانے کی فضیلت

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  تکالیف پرشِکوہ کرنے کے بجائے صَبْر کی عادت بنانی چاہئے کہ شکایت کرنے سے مُصیبت دُور نہیں   ہوجاتی بلکہ بے صبری کرنے سے صَبْرکا اَجرضائِع ہو جاتا ہے  ۔ بِلا ضَرورت مُصیبت کا اِظہار کرنا بھی اچّھی بات نہیں    ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں   کہ رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم، رسولِ مُحتَشَم، شافِعِ اُمَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اِرشاد فرمایا :  ’’  جس کے مال یا جان میں   مُصیبت آئی پھر اُس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں   کو اس کی شکایت نہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّپر حق ہے کہ اس کی مغفِرت فرما دے ۔  ‘‘      ( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطَّبَرَانِیّ  ج ۱ ص۲۱۴حدیث ۷۳۷  )

   داڑھ میں   درد کا شِکوہ کرنے والے کو تَنبِیہ    

             حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الوالی نَقْل کرتے ہیں   : حضرتِ سیِّدُنا اَحنَف بِن قَیس رَضِیَ اللہ

Index