{9}بغیر کسی تاویل کیجس نے کہا : ’’ حرام میرے لئے حلا ل ہے ۔ ‘‘ یہ قول کفر ہے ۔ (اَیْضاً ص۵۰۱)
{10}کسی سے کہا گیا : تو حلال کھا ۔ اُس نے کہا : ’’ حرام مجھے زیادہ پسند ہے ۔ ‘‘ یہ قول کفر ہے ۔ (اَیْضاً ص۵۰۱)
{11}کسی سے کہا گیا : حلال کھا ۔ اُس نے کہا : مجھے حرام ہی چاہیئے ‘‘ ایسے پر حکمِ کفر ہے ۔ (عالمگیری ج۲ ص ۲۷۲)
سُنّتوں کی توہین کے مُتَعلِّق سُوال جواب
سُوال : ایک عَمَل جو کہ سُنَّت ہے ، کسی نے اُس کی توہین کر دی، مگراُس کو یہ معلوم نہیں کہ یہ سُنّت ہے ، تو اِس بارے میں کیا حکْم ہے ؟
جواب : جن باتوں کاسُنَّت ہونا مشہور ومعروف نہ ہو ان کی انجانے میں کی جانے والی توہین کُفْرنہیں لیکن اگراسکا سُنَّت ہونا معلوم ہو چکنے کے بعد پھر توہین آمیز کلمِات سُنَّت کی توہین کی نیّت سے کہے تو اب کُفْرہے ۔
داڑھی کوچَمگادڑکے پر کہنا کیسا ؟
سُوال : زید نے ایک مرتبہ شِعارِ اسلامیہ داڑھی کے مُتَعَلِّق کہا کہ میں داڑھی نہیں رکھوں گا مجھے ان خُفّاش (یعنی چَمگادڑ )کے پروں کی ضَرورت نہیں ۔ یہ بھی دین کے ساتھ اِستِہزاء اورمُوجِبِ اِرتداد وسُقوطِ نکا ح ہے یا نہیں ؟ اور زید کاعُذر کہ ہم کو مسئلہ معلوم نہ تھا لہٰذا ہمارا نِکاح باقی ہے ، شَریعت میں مقبول ہے یا نہیں ؟
جواب : میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی بارگاہ میں اسی طرح کاسوال ہوا تو جواب میں ارشادفرمایا : داڑھی کے سا تھ اِستِہزاء بھی ضَرور کُفر ہے ۔ زَید کا ایمان زائل (برباد) اور نِکاح باطِل اور عُذرِ جہل( مسئلہ معلوم نہ ہونے کا عُذر)غَلَط و عاطِل(یعنی بے کار) کہ زَید نہ کسی دُور دراز پہاڑ کی تلی کا رہنے والا ہے ، نہ ابھی تازہ ہِند و سے مسلمان ہوا ہے کہ اُسے نہ معلوم ہو کہ داڑھی شِعارِ اسلام ہے ، اورشِعارِ اسلام سے اِستِہزائ(ہنسی مذاق) اسلام سے اِستِہزاء (مسخری کرنا ) ہے ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اِس سے نِکاح ٹوٹ جانا نہ جانتا ہو، مگر اس کا نہ جاننا اس کے نِکاح کو محفوظ نہ رکھے گا ، شیشے پر پتّھر پھینکے شیشہ ضَرور ٹوٹ جائے گا اگر چِہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ وَاللّٰہُ تعالٰی اَعلم ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج۲۱ص۲۱۵، ۲۱۶)
سُوال : یہ کہنا کیسا ہے ؟ ’’ مجھے سُنَّتوں پر بھروسہ نہیں میرے غوث پاک بُہت بَڑے ہیں ، وہ بچالیں گے ‘‘ ۔
جواب : قائل کی مُراد اگر یہ ہے کہ میرا عَمَل ناقِص اور اِخْلاص سے خالی ہوتا ہے اس لئے مجھے سُنّتوں یعنی اپنے عِلْم وعَمَل پر بھروسہ نہیں اِن شاءَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّمیرے غوث پاک بروزِ قِیامت میری شَفاعت کرکے مجھے عذاب سے بچا لیں گے ۔ تو کلِمۂ کُفْر نہیں اور اگر مَعَاذ اللّٰہ سُنّت کی تَحقِیر کے طور پر کہا توکُفْر ہے ۔ البتّہ ایسے کلمے سے اِحتِراز (یعنی بچنا) ضَروری ہے ۔
داڑھی والے کو جنگلی کہنا کیسا ؟
سُوال : داڑھی، زُلفوں اور عِمامہ شریف والے کو جَنْگلی کہنا کیسا ؟
جواب : بلاوجہ شرعیکسی بھی مسلمان کو جَنگلی کہنا جائِز نہیں کہ اِس سے مسلمان کا دل دُکھتا ہے ۔ غمخوار ِ امّت ، سراپا فضل و رحمت، جانِ عظمت و شرافت، پیکر ِ جُودو سخاوت ، تاجدارِ رسالت ، محبوبِ ر بِّ عزت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشادِ حقیقت بُنیاد ہے : ’’ مَنْ اٰذَی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَ مَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہ ‘‘ یعنی جس نے مسلمان کو اذِیَّت دی گویا اس نے مجھے اذِیَّت دی او رجس نے مجھے اذِیّت دی گویا اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو اَذِیَّت دی ۔ ( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط ج۲ ص ۳۸۶ حدیث ۳۶۰۷)خیال رہے اگر مذکورہ جُملہ مَعَاذَ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ سُنّت کی تَحْقیر و توہین کیلئے بولا گیا تو کفر ہے ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! واقعِی بَہُت نازُک دَور آگیا ہے ۔ ایک مسلمان بِا لخصوص نوجوان جب داڑھی اور عمامہ شریف کی سُنَّت اپناتا ہے تو شیطان بِپَھرجاتاہے ، خاص کر اُس کے اہلِ خاندان کو خوب اُکساتا ، اُس کے دوستوں کو بہکاتا اور نہ جانے کتنے ہی افراد کے ایمان کے لئے مسائل کھڑے کر دیتا ہے !
وہ دَور آیا کہ دیوانۂ نبی کیلئے
ہر ایک ہاتھ میں پتّھر دکھائی دیتا ہے
{1}کسی سے کہا گیا : داڑھی رکھ لو ۔ اُس نے کہا : ’’ کام کی بات کرو ۔ ‘‘ یعنی داڑھی کوفُضُول ولغو سمجھا ۔ یہ کلِمۂ کُفْرہے ۔ ہاں اگر داڑھی کو فُضول کہنا مقصود نہ تھا بلکہ سامنے والے کے خلطِ مَبحَث (خَلْ ۔ طِ ۔ مَبْ ۔ حَث ۔ یعنی گفتگو میں جو موضوع چل رہا تھا کسی کا اُس سے ہٹ کر دوسری بات شروع کر دینا)کرنے کے سبب کہا تو کفر نہیں مَثَلاً پوچھا کچھ اور تھا مگر اگلے نے بے موقع کہہ دیا : ’’ داڑھی رکھ لو ‘‘ اس پر جواب دیا : ’’ کام کی بات کرو ‘‘ یعنی پہلے میرے سُوال کا جواب تو دیدو ۔
{2}مُطلَقاً داڑھی کے سنّت ہونے کاانکار کرنا کفر ہے ۔
{3}سنّت کو حقیر سمجھتے ہوئے اُس کے ترک پرہمیشگی کُفر ہے ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص ۴۲۳)