مسلمان سے پوچھا : کیاتم گواہی دیتے ہو کہ(سیِّدُنا) محمد ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اللہ کے رسول ہیں ؟ اُس نے کہا : ہاں ، پھر اس نے پوچھا : کیاتم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟اُس نے کہا : ہاں ۔ پس مُسَیْلِمَہنے اسے چھوڑدیا ۔ پھروہ نبیِّ کریم ، رء ُوفٌ رحیم ، محبوبِ ربِّ عظیم عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ ِبے کس پناہ میں حاضِر ہوا اوراپنا ماجرا سنایا ۔ رَسُوْلُ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : رہا تمہارا ساتھی تو وہ اپنے ایمان پر قائم رہا (یعنی اس نے عَزِیمت پر عمل کیا )اور رہے تم تو تم نے رخصت پر عمل کیا ۔ ( مُصَنَّف ابن شیبہ ج۷ ص ۶۴۲) دیکھا آپ نے ! وہ صحابی اپنی جان پر کھیل گئے مگر کلِمۂ کُفر زَبان پر نہ لائے ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
غلامانِ محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر رہ جائے یا کٹ جائے وہ پروا نہیں کرتے
(2) یہ اِک جاں کیا ہے کروڑوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن حُذافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کورُومیوں نے قید کر لیااور اپنے بادشاہ کے پاس لے آئے ۔ اُس نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ نصرانیَّت قَبول کرلو ، میں تمہیں اِقتِدار میں بھی شریک کرلوں گا اوراپنی بیٹی کا رشتہ بھی دوں گا ۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ’’ اگر تو اپنا تمام مال و مِلکیَّت بلکہ اس کے ساتھ اہلِ عرب کی ساری کی ساری دولت بھی اگر اس شرط پر دے کہ میں ایک لمحہ کے لیے اپنے پیارے پیارے آقا، مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین سے پھر جاؤں توپھر بھی میں قَبول نہیں کروں گا ۔ ‘‘ بادشاہ نے کہا کہ میں تمہیں قتل کردوں گا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : جو چاہو کرو ۔ چُنانچِہ بادشاہ کے حکم سے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کوسُولی پرلٹکادیا گیا اور تیراندازوں کو کہا کہ ان کے ہاتھوں اور پاؤں پر آہِستہ آہِستہ چوٹیں لگاؤ ۔ انہوں نے ایسا کرنا شروع کیا، اِس دَوران بادشاہ برابر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر نصرانیَّت(یعنی کرسچین مذہب) پیش کرتا رہا لیکن آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ صبر واِستِقلال کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے ڈٹے رہے ۔ پھر اُس نے سُولی سے اُتارنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد بادشاہ نے تانبے کی ایک دیگ تَپانے کا حکم دیا اورایک مسلمان قیدی کوآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے تپتی ہوئی دیگ میں ڈَلوادیا اور اُس نے وہیں تڑپ کر جان دے دی ۔ اس کے بعد پھربادشاہ نے کوشِش کی کہ یہ نصرانیَّت(یعنی کرسچین مذہب)قَبول کرلیں لیکن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صاف انکار کردیا ۔ آخِر بادشاہ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی گرما گرم دیگ میں ڈالنے کا حکم دے دیا ۔ جب جَلّاد انھیں اُٹھا کر اس تَپتی ہوئی دیگ کی طرف لیجارہے تھے تو بے ساختہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے ۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کو کچھ اُمّید پیداہوئی کہ شایداب اسلام کو چھوڑکر میرا مذہب قبول کرلیں گے ۔ اس نے واپَس لانے کا حکم دیا، رونے کی وجہ پوچھی ۔ لیکن آ پ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ فرما کر اس کی امّیدوں پر پانی پھیر دیا کہ مجھے رونا اس بات پر آیا کہ میری صرف ایک ہی جان ہے جسے آگ میں ڈالا جا رہا ہے ، کاش ! میرے پاس اِتنی جانیں ہوتیں جتنے میرے جسم پر بال ہیں اور میں سب کو راہ خدا میں قربان کردیتا ۔
بادشاہ (صحابیٔ رسول کی زبردست استِقامت دیکھ کرحیرت میں پڑ گیا اور اس ) نے کہا : اس طرح کرو کہ میرے سر کو بوسہ دے دو میں تمہیں آزادکردوں گا ۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : کیا میرے ساتھ سارے مسلمان قیدیوں کو بھی رہا کردوگے ؟اُس نے کہا : ہاں ۔ چُنانچِہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُس کے سر کوچوما ۔ بادشاہ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اور تمام مسلمان قیدیوں کوآزاد کردیا ۔ (تاریخ دِمشقلِاِبنِ عَساکِر ج ۲۷ ص ۳۵۹ وغیرہ مُلخَّصاً ) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
جسے آزاد کرے قامتِ شہ کا صدقہ
رہے فتنوں سے وہ تاروزِ قیامت محفوظ(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ترے نام پر سب کو وارا کروں میں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے ! صحابیٔ رسو ل حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن حُذافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ استِقامت کے کس قَدَر زبردست پہاڑ تھے ، شریعت کی دی ہوئی رخصت کے مطابِقتَورِیہ کے ذَرِیعے اپنی جان بچانے کیلئے راضی نہ ہوئے بلکہ عَزِیمت پر عمل کرتے ہوئے اپنے مَوقِف(نقطۂ نظر) پر ڈٹے رہے ، اور اگرغم تھا ، صدمہ تھا، تڑپ تھی تو یہ تھی کہ کاش میرے رُوئیں رُوئیں میں ایک ایک جان ہوتی اور میں اپنی کروڑوں جانوں کو اپنے پیارے پیارے اللّٰہُرَحمٰن عَزَّوَجَلَّ پر قربان کر دیتا ۔ پھر جب عَزِیمتپر قائم رہتے ہوئے جان بچنے کی صورت درپیش ہوئی تب بھی فَقَط اپنی فکر نہ کی بلکہ مسلمانوں کی زبردست خیرخواہی کی مثال قائم کرتے ہوئے سارے ہی مسلمان قیدیوں کی رہائی کی ترکیب فرمائی ۔
یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں
ترے نام پر سب کو وارا کروں میں