{1} بچّے کی فوتگی پر صَبْر کاانعام
جب کسی آدمی کا بچّہ فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فِرِشتوں سے فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے لڑکے کی روح قبض کی ؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا ؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے کیا کہا ؟ وہ عرض کرتے ہیں : اس نے تیری حَمد کی اور اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶) ([1]) پڑھا ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ اس کے لیے جنّت میں ایک مکان بنادو اور اس کا نام بَیْتُ الْحَمْد (تعریف کا گھر) رکھو ۔ ‘‘ (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج۲ ص۳۱۳ حدیث ۱۰۲۳)
{2} جس کا بچّہ فوت ہوجائے اُس کیلئے جنّت کی بِشارت
مالکِ جنّت ، قاسمِ نعمت ، محبوبِ ربُّ العزّتعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس کے دو نابالِغ بچّے فوت ہوگئے وہ ان کے سبب جنّت میں جائے گا ۔ اُمُّ المومنین حضرت عائِشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کی : یا رسولَ اللہ ! عَزَّوَجلَّو صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس کا ایک بچّہ فوت ہوجائے ؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اے توفیقِ خیر والی ! ایک بچّہ والے کا بھی یہی حکم ہے ۔ (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج۲ ص۳۳۳ حدیث ۱۰۶۴)
ہے صبر تو خزانۂ جنَّت اے بھائیو !
نیکوں کے لب پہ شکوہ کبھی بھی نہ آ سکے
یااللہ ! تجھے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا ! کہنا کیسا ؟
سُوال : ایک آدمی کا انتِقال ہوگیا ۔ اس کی بیوہ نے خوب واویلا مچایا اور چیخ چیخ کر کہنے لگی : ’’ یااللّٰہ ! تجھے میرے چھوٹے چھوٹے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا ! ‘‘ بیوہ کیلئے کیا حکمِ شرعی ہے ؟
جواب : بیوہ پر حکمِ کفر ہے ، کیوں کہ اُس نے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کو ظالم قرار دیا ۔
بے صبری کرنے سے مرنے والا پلٹ کر نہیں آتا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! انسان کی موت اُس کے پسماندگان کیلئے زبردست امتحان کا باعِث ہوتی ہے ۔ ایسے موقع پر صَبْر کرنا اور بالخصوص زَبان کو قابو میں رکھنا ضَروری ہے ۔ بے صبری سے صَبْر کا اَجر تو ضائِع ہو سکتا ہے مگر مرنے والا پلٹ کر نہیں آسکتا ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ’’ حدائقِ بخشش شریف ‘‘ میں فرماتے ہیں :
آنکھیں رو رو کے سُجانے والے
جانے والے نہیں آنیوالے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! میِّت کے غم میں آنسو بہانے میں حرج نہیں البتّہ نَوحہ کرنا گناہ ہے ۔ ( ماخوذ از بہارِشریعت حصّہ ۴ ص ۲۰۳) چُنانچِہ رَسُوْلُ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ نوحہ کرنے والیوں کی قِیامت کے دن جہنَّم میں دو صفیں بنائی جائیں گی ، ایک صف جہنّمیوں کی دائیں طرف، دوسری بائیں طرف، وہ جہنّمیوں پر یوں بھونکتی رہیں گی جیسے کُتّے بھونکتے ہیں ۔ ‘‘ ( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط ج۴ ص۶۶ حدیث ۵۲۲۹)
زَباں پر شکوۂ رنج و الم لایا نہیں کرتے
نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے
’’ یااللّٰہ تجھے بھری جوانی پر بھی رحم نہ آیا ‘‘ کہنا
سُوال : ایک نوجوان کا انتِقال ہو گیا ۔ اِس کی سوگوار ماں نے غم سے نڈھال ہو کر رو کر پکارا ! ’’ یااللّٰہ ! اِس کی بھری جوانی پر بھی تجھے رحم نہ آیا ! اگر تجھے لینا ہی تھا تو اِس کی بوڑھی دادی یابُڈّھے نانا کو لے لیتا ! ‘‘ سوگوارماں کے یہ کلمات کیسے ہیں ؟
جواب : یہ کلمات، کفریات سے بھر پور ہیں ۔
’’ یااللہ ! ہم نے تیرا کیا بگاڑا ہے ‘‘ کہنے کا حکم ِشرعی
سُوال : ایک گھر میں تھوڑے تھوڑے وَقفے سے دو اَموات ہو گئیں ۔ اِس پر گھر کی بڑی بی روتے ہوئے بَڑبُڑانے لگی : ’’ یااللّٰہ ! ہم نے تیرا کیابِگاڑا ہے ! آخِر ملکُ الموت کوہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے ! ‘‘ بڑی بی کے یہ الفاظ کیا حکم رکھتے ہیں ؟
جواب : مذکورہ بڑھیا کی بکواس ربِّ کائنات کی توہین اور اس پر اعتِراضات سے بھر پور ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی توہین اور اس پر اعتِراض کرنا کفر ہے ۔
[1] ترجمۂ کنزالایمان : ہم اللہ(عَزَّوَجَلَّ) کے مال ہیں اور ہم کو اِسی کی طرف پِھرنا ۔ ( پ2 البقرہ156)