یُصَلِّیْ لَکُمْکہ یہ تمہاری جماعت نہ کرائے ۔ اُس نے پھر جماعت کرانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اُس کو مَنْع کیا اور اُس کو خبر دی کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تمہارے پیچھے نَماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔ پھر حُضُور سراپا نور ، فیض گَنجور، شاہِ غَیُور ، صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں یہ واقِعہ پیش ہوا ۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ہاں ( میں نے منع کیا ہے ) اِنَّکَ اٰذَیْتَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ ۔ کہ تُو نے ( قبلہ کی طرف تھوک کر ) اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دی ۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۱ ص ۲۰۳ حدیث ۴۸۱)
کعبے کے کعبے کی بے ادَبی کرنے والا کیونکر امام ہو سکتا ہے !
حضرتِ فقیہِ اعظم، خلیفۂ اعلیٰ حضرت علّامہ مولیٰنا ابو یوسف محمد شریف کوٹلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں : یہاں سے معلوم کر لینا چاہئے کہ دین میں ادب کی کس قَدَر ضَرورت ہے ۔ اور سرورِ عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبلہ شریف کی بے ادَبی کرنے کے سبب منع فرمایا کہ یہ شخص نَماز نہ پڑھائے ۔ تو جو شخص سر سے پاؤں تک بے ادب ہو، سرورِ عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں گستاخ ہو، اَئِمَّۂ دین کی بے ادَبی کرتا ہو ، حضراتِ مشائخ پر طرح طرح سے تَمسخُر کرے ۔ کیا ایسا شخص امام بننے کا شرعاً حق رکھتا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ (اَخلاق الصّالحین ص ۱۳ )
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : خیال رہے کہ یہ امام صحابی تھے مگر اِتِّفاقاً ان سے یہ خطا ہو گئی پھر توبہ کر لی کیونکہ کوئی صحابی فاسِق نہیں ، جب اِتِّفاقاً خطا پرامامت سے مَعزُول کر دیا گیا تو جان بوجھ کر بے ادَبی کرنے والاضَرورمَعزُول کر دیا جائیگا ۔ (مراٰۃ ج ۱ص ۴۵۹)
نَماز کے مُتَعَلِّق بکے جانے والے کُفریّات کی52مثالیں
{1} جس نے کہا : ’’ اللّٰہ نے میرا مال کم کیا، اب میں بھی اس کے حق میں کمی کروں گا اورنَماز نہ پڑھوں گا ‘‘ ۔ ایسا کہنا کفر ہے ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص۴۶۴)
{2} کسی سے کہا گیا کہ نَماز پڑھ لے ۔ اُس نے جواب میں کہا : ’’ میں پاگل ہوں جونَماز پڑھوں اور اپنے اوپر کام بڑھاؤں ! ‘‘ ایسا جواب دینا کفر ہے ۔
{3} کسی نے کہا : نَماز پڑھو ۔ اُس نے جواب دیا : ’’ عقلمند کو ایسے کام میں نہ پڑنا چاہیئے جس کو آخِر تک نِباہ نہ سکے ۔ ‘‘ یا یہ کہا : {4} ’’ میرے واسِطے اور لوگ کرلیتے ہیں ۔ ‘‘ یہ دونوں کلمات ِکُفر ہیں ۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ ص ۲۶۸)
{5}کسی نے کہا : ’’ نَماز پڑھنے سے مجھے کوئی سرفَرازی نہیں مل جاتی ‘‘ کہنے والے پر حکمِ کُفر ہے ۔
{6} جو صِرف رَمَضانُ الْمبارَک میں نَماز پڑھتا ہے اور اس کے علاوہ نہیں پڑھتااور کہتا ہے : ’’ یِہی بَہُت ہے کیونکہ ہرفرضنَماز ستَّر گُنا ہے ۔ ‘‘ ایسا کہناکفر ہے ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص۴۶۵)
{7}پِیر سے کہاگیا : نَماز پڑھو ۔ اُس نے کہا : ’’ میرے مُرید پڑھ رہے ہیں یہی کافی ہے ۔ ‘‘ یہ کلِمۂ کُفْرہے ۔
{8}کسی سے کہاگیا : نَماز پڑھو ۔ اُس نے کہا : ’’ نَماز تو غریبوں کے لئے ہے ہمارے لئے نہیں ۔ ‘‘ یہکلِمۂ کُفْر ہے ۔
{9}کسی سے کہا گیا : نَماز پڑھو ۔ اُس نے جواباًکہا : ’’ اگر جنّت میں جانا ہوگا تو جنَّت میں چلے جائیں گے اور اگر جہنَّم میں جانا ہوگا تو جہنَّم میں چلے جائیں گے ، نَماز سے کیا ہوتا ہے ۔ ‘‘ ایسا کہنا کُفر ہے ۔
{10}کسی سے کہا گیا : ’’ نَماز پڑھو ‘‘ ۔ اُس نے کہا : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں کیا دیا ہے جونَماز پڑھیں ! ‘‘ یہکلِمۂ کُفْرہے ۔
{11} نَماز کی فَرضِیّت اور ان کی رَکعتوں کی تعداد پر اِعتِراض کرنا کفر ہے ۔
{12} نَماز ’’ پڑھنے ‘‘ کا حکم کہیں نہیں ، ’’ قائم ‘‘ کرنے کا حکم ہے وہ ہم نے دل میں قائم کی ہوئی ہے ۔ ایسا کہناکفر ہے ۔
{13}اگرکسی نے یہ کہا : ’’ ہم سے تو کرسچِیَن اچّھے ہیں کہ ہفتے میں ایک مرتبہ پڑھتے ہیں ، ہمیں توروزانہ پانچ بار نَماز پڑھنی پڑتی ہے ۔ ‘‘ یہکلِمۂ کُفْر ہے ۔
{14}کسی نے کہا : ’’ ایک دو نَمازہوتی تو بندہ پڑھ بھی لیتا یہ پانچ کون پڑھے ! ‘‘ یہکلِمۂ کُفْرہے ۔
{15} ’’ میں نَماز نہیں پڑھتا ، میرے پِیر نے نَمازیں بخشوادی ہیں ‘‘ ایسا کہنا کفر ہے ۔
{16} نَماز میں قِبلہ کی سَمت کے ضَروری ہونے کامُطلَقاً انکار کرناکفرہے ۔