کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-

ترجَمۂ کنزالایمان :  بے شک اللہ اسے نہیں   بخشتا کہ اس کے ساتھ کُفر کیا جائے اورکُفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے ۔

 گھر میں   کُفّار کے بُتوں   کی تصاویر آویزاں   کرنا

سُوال :   اپنے گھر میں   کُفّار کے بُتوں   کی تصاویر آویزاں   کرنا کیسا ہے ؟

جواب : میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  :  ’’ بُتوں   کی ناپاک تصویروں   کو دیواروں   پر آویزاں   کرنا اگر وَیسے عادت کے طور پر ہو کہ اس کو پاگل لوگ مکانات کی زِینت سمجھتے ہیں   اور کسی کُفرکی طرف تَجاوُز نہ کیا ہوتویہ(اگر چِہ کفر نہیں   مگر) خبیث ترین کبیرہ گناہ ہے جو جہنَّم میں   لے جانے والا، فِرِشتوں   کو دُور اورشیطانوں   کوقریب کرنے والا ہے ۔ اور اگریہ کام کُفّار کی رَسم کو پسند کرتے ہوئے اور دَوزَخیوں   کے معبودوں   کی تعظیم کے طور پر کیا ہو تو یہ صریح کُفر ہے جو اس کی تکفیر کا باعث ہے ۔   ‘‘   (فتاوٰی رضویہ ج۱۳ص ۴۸۷)

کافر کے پاس نوکری کرنا کیسا ؟

سُوال :  کافِر کے پاس نوکری کرناکیسا ؟

 جواب : میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : کافر کی نوکری مسلمان کے  لیے وہی جائز ہے جس میں   اسلام اور مسلم کی ذلت نہ ہو  ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۱ص ۱۲۱) بَہرحال کافِر کے یہاں   ذلت کی نوکری جیسے اُس کے پاؤں   دبانا، اُس کے یہاں   گند(کچرا)اٹھانا ، گندی نالیاں   صاف کرنا وغیرہ جائز نہیں   ۔

مُرتَد کے یہاں   مُلازَمت کر سکتے ہیں   یا نہیں  ؟

سُوال :  کیا مُرتد کے یہاں   مُلازَمت کر سکتے ہیں   ؟مُرتَد کی نوکری کرنے والے کو کافِر کہنا کیسا ؟

جواب :  مُرتَد کے یہاں   نوکری نہیں   کر سکتے ۔  مگر نوکری کرنے والا اِس سے کافِر نہیں   ہو جاتا ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  : کافِر اصلی غیرِمُرتَد کی وہ نوکری جس میں   کوئی اَمر ناجائزِ شرعی کرنا نہ پڑے جائز ہے اور کسی دُنیوی مُعامَلہ کی بات چیت اُس سے کرنا اور اس کے لئے کچھ دیر اُس کے پاس بیٹھنا بھی منع نہیں    ۔ اِتنی بات پر(کسی مسلمان کو) کافِر بلکہ فاسق بھی نہیں   کہا جا سکتا ۔ ہاں   مُرتَد کے ساتھ یہ سب باتیں   مُطلَقاً منع ہیں   اور کافِر اُس وقت بھی(یعنی مُرتد کے پاس نوکری کی وجہ سے بھی) نہ ہوگامگر یہ کہ اُس کے مذہب وعقیدہ ٔ کُفر پر مُطَّلَع ہو کر اُس کے کفر میں   شک کرے تو البتّہ کافر ہو جائے گا ۔ بِغیرثُبُوتِ وجہِ کُفر کے مسلمان کو کافر کہنا سخت عظیم گناہ ہے بلکہ حدیث میں   فرمایا کہ وہ کہنا اُسی کہنے والے پر پلٹ آتا ہے ۔  وَالعِیاذ بِاللّٰہ تَعالٰی ۔  وَاللّٰہُ تَعالٰی اعلم ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص ۵۹۱، ۵۹۲)

کافروں   کے مَحَلّے سے جلدی گزر جایئے  !

سُوال : کافروں   کی دُنیوی مجالس( بیٹھکوں  ) میں  شریک ہونا کیسا ؟

جواب : میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  : (کافروں   کی مجالس)ہر وَقت مَعاذَاللّٰہمَحَلِّ نُزولِ لعنت ہیں  (یعنی ان لوگوں   کی بیٹھکیں   ہر وقت لعنتیں   اُترنے کے مواقِع ہیں  ) تو اُن سے دُوری بہتر، یہاں   تک کہ عُلَماء فرماتے ہیں  :  ’’ اُن کے مَحَلّہ میں   ہو کر گزر ہو تو شِتابی کرتا ہو ا (یعنی جھٹ پٹ) نکل جائے ۔  ‘‘  وہاں   آہِستہ چلنا نا پسند رکھتے ہیں   تو رُکنا ٹَھَہرنا  بَدَرَجۂ اَولیٰ مکروہ ۔ (فتاویٰ رضویہ ج۲۳ ص ۵۲۵) یہاں   مکروہ سے مُراد مکروہِ  تنزیہہ ہے (اَیضاً ص ۵۲۶) البتّہ ان کی عبادت گاہوں   میں   جانا مکروہِ تحریمی ہے کیونکہ وہ مجمعِ شیاطین ہیں  ۔ (اَیضاً ص ۵۲۴مُلَخَّصاً)

کفّار کے مَحَلّوں  میں   کاروبارکر نے جاسکتے ہیں   یا نہیں  ؟

سُوال : کافروں   کے مَحَلّوں   وغیرہ میں   بغرضِ تجارت آنا جانا کیسا ہے ؟

جواب  : کافروں   کے مَحَلّوں   وغیرہ میں  (1)اگر کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاوہاں   ناچ رنگ کی محفل نہ ہو (2) ان کا کوئی مذہبی تہوار نہ ہو(3)یا وہاں   ان کے کسی میلہ وغیرہ تماشا دیکھنے کی نیت نہ ہوتو ان صورتوں   میں   بغرض تجارت اور دیگر دُنیوی کاموں   کیلئے آنا جانا جائز ہے لیکن پھر بھی مکروہ تنزیہی ضَرور ہے اور بچنا بہتر ہے کہ کافِروں   کے مَحَلّوں  اور گھروں   سے دُوررہنے اور وہاں   سے جلد گزرجانے ہی میں   عافیَّت ہے ۔  

کافروں   کے میلوں   میں   تجارت کیلئے جانا

سُوال : کیاکُفّار کے مَیلوں   میں   کاروبار کرنے جا سکتے ہیں   یا نہیں  ؟

جواب : کفّار کے میلوں   میں   بغرضِ تجارت جانے کیمُتَعَلِّق پوچھے جانے والے سُوال کا جواب دیتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  : اگر وہ مَیلہ اُن کا مذہبی ہے جس میں   جمع ہو کر اعلانِ کفر وادائے رُسُومِ شرک کرینگے تو بقصدِ تجارت جانا بھی ناجائز و مکروہِ تحریمی ہے ، اور ہر مکروہِ تحریمی صغیرہ اور ہر صغیرہ اِصرار سے کبیرہ ۔ مزید آگے چل کر جواز کی صورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں   : اور اگر مجمع مذہبی نہیں   بلکہ صِرف لَہو ولَعِب کا مَیلہ ہے تو محض بغرضِ تجارت جانا فی نَفسِہٖ ناجائز و ممنوع نہیں   جبکہ کسی گناہ کی طرف مُؤَدّی(یعنی گناہ کی جانب لے جانے والا) نہ ہو ۔ یہ جواز بھی اُسی صورت میں   ہے کہ اسے وہاں   جانے میں   کسی معصیَّت(گناہ)    کا ارتِکاب نہ کرنا پڑے ۔  مَثَلاً جلسہ ناچ رنگ کاہو اور اسے اُس سے دُور وبَیگانہ موضِع میں  (یعنی دور الگ تھلگ) جگہ نہ ہو تو یہ جانامُسْتَلْزِمِ معصیَّت (یعنی معصیَّت وگناہ کو لازم کرنے والا) ہو گا اور ہرمَلزُومِ معصیَّت،

Index