کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

سُوال :   جو شخص گناہ پر ضد کرے اور خدا ورسولعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے حکم پر دوسرے آدَمی کے حکم کو تَرجیح دے وہ کیسا ہے ؟

جواب : ترجیح کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے حکم کے بجائے کسی دوسرے کے حکم پر عمل کرے یہ تو کفر نہیں   جبکہ ترجیح کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ کسی کے حکم کو اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے حکم سے بڑا سمجھا لیکن کوئی گنہگا ر سے گنہگار مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں   سکتا کہ وہ کسی اور کے حکم کواللہ ورسولعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے حکم سے بڑا سمجھے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ  امام اَحمد رَضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰناِسی طرح کے ایک اِستِفتاء کا جواب دیتے ہوئے فر ماتے ہیں   : اور حکم سُن کر گناہ پر ہٹ (یعنی ضد) کرنا استحقاقِ عذابِ نار ہے ۔ اللہ  عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ(۲۰۶)(پ۲ البقرہ ۲۰۶)

ترجمۂ کنزالایمان : اور جب اس سے کہا جائے کہاللہ (عَزَّوَجَلَّ)  سے ڈر تو اسے اور ضد چڑھے گناہ کی ایسے کو دوزخ کافی ہے اور وہ ضَرور بَہُت بُرا بچھونا ہے ۔

            ابلیس کی پَیروی سے حکمِ خدا و رسول پر نہ چلنا اور ظالم کے حکم پر چلنا گناہِ کبیرہ ہے ، اِستحقاقِ جہنَّم ہے ۔  مگر کوئی مسلمان کیسا ہی فاسِق فاجِر ہو یہ خیال نہیں   کرتا کہ اللہ و رسول کے حکم پر اس (یعنی ظالم)کے حکم کو ترجیح ہے ۔  ایسا سمجھے تو آپ(یعنی خود) ہی کافِر ہے ۔  وَالعِیاذ بِاللّٰہ تَعالٰی ۔ وَاللّٰہُ تَعالٰی اَعْلَمُ ۔  (فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص ۳۴۸)

ڈانس کو جائز کہنا کیسا ؟

سُوال :     ’’ مُرَوَّجَہ ڈانس کو جائز کہنا  ‘‘ کیسا ہے ؟

جواب : فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام فرماتے ہیں   : جو رقص کرنے کو جائز سمجھے اُس پر حکمِ کفرہے (دُرِّمُختار ج۶ ص ۳۹۶ ) یہاں   رقص سے مُراد لچکے توڑے کے ساتھ کیا جانے والا وہ ناچ (ڈانس)ہے  جو کہ شَرعاً ناجائزہے ۔ عشقِ حقیقی کے باعِث بے خودی میں   جھومنا ، وجد طاری ہونا یا تَواجُد یعنی عاشقانِ خدا و رسول کے وجدِ صادِق کی مُخلِصانہ نَقّالی مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکفر نہیں   بلکہ عین سعادت ہے ۔

انسان کو شیطان کہنا کیسا ؟

سُوال :  انسان کو شیطان کہناکیسا ہے ؟

جواب :  آج کل یہ لفظ اکثر لوگ بطورِ گالی استِعمال کرتے ہیں  ۔ شرارتی بچّے کو بھی شیطان بول دیتے ہیں   ۔ اِس کی صورَتیں   بیان کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰنفتاوٰی رضویہ جلد 13صَفْحَہ656 پر فرماتے ہیں  : گمراہ بددین کو شیطان کہا جا سکتا ہے اور اُسے بھی جو لوگوں   میں   فِتنہ پردازی کرے ، اِدھر کی اُدھر لگا کر فساد ڈلوائے ، جو کسی کو گناہ کی ترغیب دے کر لے جائے وہ اُس کاشیطان ہے ، اور مومنِ صالح کوشیطان  کہنا شیطان  کا کام ہے ۔ مزیدصَفْحَہ 652پر تحریر کرتے ہیں  : مسلمانوں   کو بِلا وجہ شَرعی مردود یا ابلیس کہنا سخت حرام ہے ۔  اللہ  عَزَّوَجَلَّ  فرماتا ہے :

وَال وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸)نَ ٔ (پ۲۲ الاحزاب ۵۸)

ترجَمۂ کنزالایمان : اور جو ایمان والے مردوں   اور عورتوں   کو بے کئے ستاتے ہیں   اُنہوں   نے بُہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا ۔

            نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  فرماتے ہیں  : جس نے کسی مسلمان کو( ناحق) ایذادی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اُس نے اللہ    (عزَّوَجَلَّ)کو ایذا دی ۔   (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط ج۲ ص۳۸۶حدیث۳۶۰۷)

 ’’ گناہ ‘‘  کے مُتَعلِّق کفریات  کی11 مثالیں 

{1}کسی نے کہا :   ’’ اللہ  تعالیٰ جہنَّم میں   بھیجنے کے علاوہ کیا کرسکتا ہے ؟ ‘‘  یہ قول کفر ہے ۔  ( عالمگیری ج۲ص۲۶۲)

{2}کسی سے کہا گیا :  گناہ نہ کر اللہ  تعالیٰ عذاب دے گا  ۔ اُس نے کہا :  ’’  میں   ایک ہاتھ سے ساراعذاب اُٹھالوں   گا ۔  ‘‘  یہ کہنے والا کافر ہے ۔  (عالمگیری ج۲ ص۲۶۰)

{3}اگر کسی فاسق کے بچّے نے پہلی مرتبہ شراب پی اور اسکے رشتے دار اسے  مبارَک باد دے رہے ہیں  ، اُس پر پیسے لُٹارہے ہیں  ۔ ان سب پرحکمِ کفر ہے ۔  (مِنَحُ الرَّوض ص ۵۰۷)

{4}کسی آدمی نے صغیرہ گناہ کیا  ۔ دوسرے نے کہا  : توبہ کر ۔  اُس نے کہا :   ’’ میں   نے کیا کیا ہے جو توبہ کروں   !  ‘‘  یہ کہنے والاکافرہے ۔  ( مَجْمَعُ الْاَنْہُر ج۲ ص