جواب : ایسا نہیں ہے کہ ہر غیر عالِم مسلمان مَعاذَاللّٰہ ثُمَّ مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ کفر ہی پر مرے گا ۔ مگر انسان کوخود سوچنا چاہئے کہ فانی دُنیا بنانے کی خاطِر دُنیوی عُلُوم و فُنُون سیکھنے پر زندگی کا اچّھا خاصا حِصّہ صَرف کر دیتا ہے تو آخِر باقی آخِرت بنانے کی خاطِر ضَروری عُلُوم سیکھنے میں کیوں کوتاہی کرتا ہے ! میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 24صَفْحَہ158 پر فرماتے ہیں : بَدِیہیاتِ دینیہ([1]) (بَدی ۔ ہی ۔ یاتِ ۔ دِینی ۔ یَہ) سے ہے کہ اَوَّلاً عقائدِ اسلام و سنَّت پھر احکامِ صلوٰۃ و طہارت وغیرہا ضَروریاتِ شرعِیَّہ سیکھنا سکھانا فرض ہے اور انھیں چھوڑ کر دوسرے کسی مستحب و پسندیدہ علم میں بھی وَقت ضائِع کرنا حرام ۔ فتاوٰی رضویہ شریف جلد 18صَفْحَہ 501 پر فرماتے ہیں : ’’ مسلمان بے علمِ دین ایک قدم نہیں چل سکتا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ علم دے ، اس پر عمل دے ، اس کو قبول فرمائے ۔ ‘‘
ایمان چھیننے کاعجیب شیطانی انداز
میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایمان کی حفاظت کیلئے علمِ دین کی اَھَمِّیَّت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بِغیرعلم کے صُوفی کو شیطان کچّے تاگے (یعنی کمزور دھاگے ) کی لگام ڈالتا ہے ۔ منقول ہے : بعدِنَمازِ عصر شیاطین سمند ر پر جَمع ہوتے ہیں ، ابلیس کا تَخت بِچھتا ہے ، شیاطین کی کارگُزاری پیش ہوتی ہے ، کوئی کہتا ہے : اس نے (یعنی میں نے ) اتنی شرابیں پلائیں ، کوئی کہتا ہے ، اِس نے (یعنی میں نے ) اتنے زِنا کرائے سب کی سُنیں ۔ کسی نے کہا : اس نے (یعنی میں نے ) آج فُلاں طالِبِ علمِ (دین) کو پڑھنے سے باز رکھا ۔ (شیطان یہ) سنتے ہی تَخت پر سے اُچھل پڑا اور اس کو گلے سے لگا لیا اور کہا : اَنْتَ اَنْتَ(یعنی بس)تُو نے (زور دار ) کام کیا ۔ اور شیاطین یہ کیفیت دیکھ کر جل گئے کہ اُنہوں نے اِتنے بڑے بڑے کام کئے ان کو کچھ نہ کہا اور اس(شیطان کے چَیلے ) کو(طالبِ علم دین کو صِرف ایک چھٹی کروا دینے پر) اتنی شاباش دی ! اِبلیس بولا : تمہیں نہیں معلوم جو کچھ تم نے کیا ، سب اِسی(علمِ دین پڑھنے سے روکنے والے ) کا صدقہ ہے ۔ اگر(دینی)عِلْم ہوتا تو وہ (لوگ)گُناہ نہ کرتے ۔ بتاؤ ! وہ کون سی جگہ ہے جہاں سب سے بڑا عابِد(عبادت گزار) رہتا ہے مگر وہ عالِم نہیں اور وہاں ایک عالِم بھی رہتا ہو ۔ اُنہوں نے ایک مقام کا نام لیا ۔ صبح کو قبلِ طُلوعِ آفتاب (ابلیس اپنے چَیلے ) شیاطین کولئے ہوئے اُس مقام پرپہنچا ۔ اور شیاطین مَخفی(چُھپے )رہے اور یہ(یعنی ابلیس) انسان کی شکل بن کر رَستہ پر کھڑا ہو گیا ۔ عابِد صاحِب تَہَجُّد کی نَماز کے بعد، نَمازِ فجر کے واسِطے مسجِد کی طرف تشریف لائے ۔ راستہ میں اِبلیس کھڑا ہی تھا، حضرت ! مجھے ایک مسئلہ (مَسْ ۔ ء ۔ لَہ)پوچھنا ہے ۔ عابِد صاحِب نے فرمایا : جَلد پوچھو ۔ مجھے نَماز کو جانا ہے ۔ اِس(اِبلیس) نے اپنی جیب سے ایک شیشی نکال کر پوچھا : (کیا) اللہ تعالیٰ قادِر ہے کہ ان سَماوات و ارض (یعنی آسمانوں اور زمینوں ) کو اِس چھوٹی سی شیشی میں داخِل کر دے ؟ عابِد صاحِب نے سوچا اور کہا : ’’ کہاں آسمان و زمین اورکہاں یہ چھوٹی سی شیشی ! ‘‘ (اِبلیس) بولا : بس یِہی پوچھنا تھا تشریف لے جایئے اور(پھر اپنے چَیلے ) شیاطین سے کہا : دیکھو (میں نے )اس(عابِد) کی راہ مار دی، اس کو اللہ کی قدرت پر ہی ایمان نہیں (اِس بے ایمان مُرتد کے اب ) عبادت کس کام کی ! طُلُوعِ آفتاب کے قریب عالِم صاحِب جلدی کرتے ہوئے تشریف لائے اُس (اِبلیس)نے کہا : مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے ۔ اُنہوں نے فرمایا : جلدی پوچھو نَماز کا وَقت کم ہے ۔ اِس نے وُہی سُوال کیا ۔ (سُن کر عالم صاحِب نے فرمایا : ) ملعون ! تُو اِبلیس معلوم ہوتا ہے ، ارے ! وہ قادِر ہے کہ یہ شیشی تو بَہُت بڑی ہے ایک سُوئی کے ناکے کے اندر اگر چاہے تو کروڑوں آسمان و زمین داخِل کردے ۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰) (ترجَمۂ کنزالایمان : بے شک اللّٰہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔ پ۱ البقرہ ، ۲۰ ) عالِم صاحِب کے تشریف لے جانے کے بعد شیاطین سے (ابلیس ) بولا : دیکھو ! یہ علم کی بَرَکت ہے ۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت حصّہ سوم ص ۳۵۶۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے ! عالِم صاحِباللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت کے عنایت کردہ علمِ دین کی بَرَکت سے شیطان سے اپنے ایمان کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ وہ جاہِل صُوفی اور بے عِلم تَہجُّد گزارعابِد علمِ دین سے دُوری کے سبب شیطان کی باتوں میں آکر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ اِس لئے ایمانیات اورکُفریات کے بارے میں معلومات حاصِل کرنا ہر مسلمان کیلئے ناگزیز ہے کہ کہیں شیطان ایمان نہ لے اُڑے ۔ اِس روایت سے وہ طَلَبہ علمِ دین بھی درس حاصِل کریں جو معمولی سی مجبوری یا محض سُستی کی بِنا پر اپنی پڑھائی کی چُھٹّیاں کر کے شیطان کی کیسی حوصلہ افزائی اور اپنا کتنا زبردست نقصان کر بیٹھتے ہیں ! اِسی طرح سنّتوں بھرے اجتِماعات اورسنّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافِلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سفر سے تَکاہُل ( سُستی) برتنے والوں کیلئے بھی اِس روایت میں ہدایت کے کافی مَدَنی پھول ہیں ۔ ؎
محبوبِ خدا ! سر پر اجل آکے کھڑی ہے
شیطان سے عطّارؔ کا ایمان بچا لو
اچّھا خاصا مسلمان کُفر کے غار میں کیسے جا پڑتا ہے ؟
سُوال : ’’ اچّھا خاصا مسلمان کفر کے غار میں کیسے جا پڑتا ہے ‘‘ اِس کے لئے مزید عقلی اور نقلی مَدَنی پھول عنایت فرما دیجئے ۔
جواب : دنیامیں ہر چیز کی ایک ضِد (یعنی اُلَٹ)پائی جاتی ہے ۔ گرمی کی ضِد سردی، خوشبو کی ضِد بدبُو، مٹھاس کی ضِد کڑواہٹ ، جھوٹ کی ضِد سچ ، اچھائی کی ضِدبُرائی اوررِضا مندی کی ضِد ناراضی ہے ، یُوں ہی ایمان کی ضِدکُفر ہے جو صاحِبِ ایمان ہو گا وہ کفر سے خالی ہو گا اور جو کافر ہو گا وہ ایمان سے محروم ہوگا ۔ جہاں ایمان ہوگا وہاں نہ تو اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین ہوگی نہ اِنکار نہ اِستِخفاف (اِسْ ۔ تِخ ۔ فاف یعنی شان گھٹانا) ۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفحات پر مشتمل کتاب ،