کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

        اسلام کے عظیم سِپَہ سالار حضرتِ سیِّدُنا ابوعُبیدہ بن جَرّا ح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جنہیں   حُضُور سراپا نور ، فیض گَنجور، شاہِ غَیُور ، صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اِس اُمّت کاامین فرمایا ۔ اپنے بارے میں  کہا کرتے تھے :  کاش میں   مَینڈھا ہوتا، میرے گھر والے مجھ کو ذَبح کر لیتے ، میرا گوشت کھا لیتے اورشَوربہ پی لیتے ۔  (الزھد للامام احمد بن حنبل ص۲۰۳)اللّٰہُرَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  

{2} کاش !  میں   راکھ ہوتا

            حضرتِ سیِّدُناعِمران بن حُصَیْنرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں  حضرت ِ سیِّدُنا قَتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں   : آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : کاش !  میں   راکھ ہوتا جسے ہوائیں   اُڑا لے جاتیں  ۔ (الزھد للامام احمد بن حنبل ص ۱۷۲)اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  

{3} کاش !  میں   روزِ قِیامت نہ اٹھایا جاؤں 

            امیرُالمؤمنینحضرتِ سیِّدُناعثمان غنیرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جوکہ حُضورِ پُرنور ، شافِعِ یومُ النُّشُورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُقرَّب ترین صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  میں   سے ہیں  ، خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ  کے غَلَبہ کی بنا پر فرماتے ہیں  : کاش !  مرنے کے بعد مجھے دوبارہ نہ اُٹھایا  جاتا ۔ (  اِحْیاءالْعُلُوم ج۴ ص ۲۲۶ ) اللّٰہُرَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     

کاش کہ میں   دنیا میں   پیدا نہ ہوا ہوتا               قبرو حشر کاسب غم ختم ہو گیا ہوتا

آہ !  سلبِ ایماں   کا خوف کھائے جاتا ہے

کاش !  مِری ماں   نے ہی مجھ کو نہ جنا ہوتا

وُجُودِ الٰہی کے انکار  کے بارے میں   سُوال جواب

  ’’ اللہ ہوتا تو غریبوں   کا ساتھ دیتا ‘‘  کہنا کیسا ؟

سُوال :  کسی نے مُشکِلات سے تنگ آکر یہ کہہ دیا :   ’’ اگر واقِعی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہوتا تو غریبوں   کا ساتھ دیتا، مجبوروں   کا سَہارا ہوتا ‘‘ اس بارے میں   کچھ ارشاد فرمائیے ۔

جواب :  مذکورہ جُملے سے صاف ظاہِر ہے کہ کہنے والااللہ  عَزَّوَجَلَّ کے وُجُود ہی کا اِنکار کررہا ہے کہ غریبوں   مجبوروں   کی مدد نہ ہونا اِس وجہ سے ہے کہ (مَعاذَاللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ)اللہ  عَزَّوَجَلَّ   نہیں   ہے اگر ہوتا تو ان کی مدد ہوتی ۔  کہنے والاکافِر و مُرتَدہے  ۔

 ’’ اللّٰہ ہوتا تو ضَرور سنتا  ‘‘ کہنا کیسا ؟

 سُوال : یہ کہنا کیسا کہ  ’’  مجھے ایسا لگتا ہے کہاللہ    نہیں   ہے اگر ہوتاتو میری دُعا ضَرُور سنتا ۔  ‘‘  

جواب : اِس جُملے میں   اللّٰہُ غفّار عَزَّوَجَلَّ کے وُجُود کا انکار پایا جا رہا ہے  ۔ کہنے والا کافِر ہو گیا  ۔

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں   کہ جب تک آسائشیں   ملتی ہیں  ، اللہ عَزَّوَجَلَّسے خوش رہتے ہیں   مگر جُوں   ہی روزی میں   تنگی وغیرہ کے ذَرِیْعے آزمائشیں   آتی ہیں   تو اُول فُول بکنے اورخدا کی پناہ ! اللہ   عَزَّوَجَلَّ کو بُرا بھلا کہنے لگتے ہیں   جیسا کہ پارہ 30  سُورَۃُالْفَجْرکی آیت نمبر15 اور 16 میں   اللّٰہ ُرحمٰن  عَزَّوَجَلَّ  کا فرمانِ عبرت نشان ہے : فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَكْرَمَنِؕ(۱۵)وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَهَانَنِۚ(۱۶)(پ ۳۰سورۃُ الفَجر ۱۵، ۱۶)

تَرْجَمَۂ کنزالایمان :  لیکن آدمی تو جب اُسے اُسکا رب(عَزَّوَجَلَّ) آزمائے کہ اِس کو جاہ اور نعمت دے جب توکہتاہے : میرے رب (عَزَّوَجَلَّ)   نے مجھے عِزَّت دی اور اگر آزمائے اور اسکا رِزق اس پر تنگ کرے تو کہتا ہے : میرے رب (عَزَّوَجَلَّ) نے مجھے خوار کیا ۔  

دُشواری کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے

             اگر بیماری ، بے رُوزگاری یا کسی طرح کی دشواری کا سامنا ہو تو صَبْر ، صَبْر اورصرفصَبْرہی کرنا چاہئے کہ اللہ   تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے صَبْرکرنے والوں   کے لئے ڈھیروں   ڈھیر اَجر رکھا ہے ۔ اللّٰہُ باریعَزَّوَجَلَّ نے ہر دشواری کے ساتھ آسانی بھی رکھی ہے ، چُنانچِہ پارہ 30  سُورَۂ اَ لَمْ نَشْرَحْ کی آیت نمبر5 اور6 میں  ارشادِ  ربّا نی ہے :

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ(۵)اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاؕ(۶) (پ ۳۰ الم نشرح  ۵