کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

اللّٰہ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یعنی  ’’ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کے رسول ہیں   ‘‘  نہ کہہ  لے ۔  (مَجْمَعُ الانھُرج ۲ص۵۰۳) بلکہ کسی ایک نبی کو نبی ماننے سے انکار کرنا بھی کفرہے  ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام فرماتے ہیں   : جو کوئی انبیائے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  میں   سے بعض انبیائے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  کو نہ مانے یا جو انبیائے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی سنّت ہو اُس پر راضی نہ ہو تویقینا اس نے کفر کیا  ۔ (عالمگیری ج۲ص۲۶۳) بَہَرحال محبوبِ ربِّ ذوالجلال ، صاحبِ جُودونَوال، شَہنشاہِ خوش خِصال، سلطانِ شیریں   مَقال، پیکرِحسن وجمال عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   پر ایمان نہ لانا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کوآخِری نبی نہ ماننا اور اپنے دین کو چھوڑ کر سیِّدُ الْمُرسَلین،   خاتَمُ النَّبِیِّین ، جنابِ رحمۃٌ  لِّلْعٰلمِین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    کے لائے ہوئے دینِ مُبین کو نہ اپنانا یہودو نصارٰی کا خالِص کُفر ہے کہ اب اہلِ ایمان یعنی مومِن ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ خاتَمُ النَّبِیِّین، صاحِبِ قراٰنِ مُبین ، محبوبِ ربُّ العٰلَمِین، جنابِ صادِق وامین  عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لائے ہوئے دینِ مَتین کی تصدیق کرنے والا اور اس پر بِلاچُون وچرا ایمان لانے والا ہو ۔ مَجْمَعُ الْاَنْھُر میں   ہے : ’ ’جو کوئی محترم نبی، مکّی مَدَنی ، محبوبِ ربِّ غنی عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو آخِری نبی نہ جانے تووہ مسلمان نہیں ۔  ‘‘ (مَجْمَعُ الانھُرج ۲ص۵۰۶) تو چُونکہ یہودو نصارٰی کا اہلِ ایمان ہونا نہ قراٰنِ پاک سے ثابت ہے نہ احادیثِ مبارَکہ سے لہٰذا ان کو اہلِ ایمان کہنا قَطعی کفر ہے کیونکہ کافِر کو کافِر جاننا ضَروریاتِ دین میں   سے ہے ۔  چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی  رضویہ شریف میں   حضرتِ سیِّدنا امام ابو زَکرِیّانووی اورسیِّدُنا امام ابنِ حَجر مکّی رَحِمہُمَا اللّٰہُ القوی کا مبارَک قول نَقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں  : جب کسی نے ایسی بات کا انکار کیا جس کاضَروریاتِ دینِ اسلام سے ہونا مُتَّفَقٌ عَلَیہ(یعنی جس پر سبھی اہلِ اسلام کا اتِّفاق ہونا) معلوم ہے خواہ اس میں   نَص ہو یا نہ ہو تو اس کا انکار کفر ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ص۳۳۹)

 کیا یہودو نصارٰی دائمی جہنَّمی ہیں  ؟

سُوال :  تو کیا یہودو نصارٰی کو اہلِ ایمان کہنے کی کوئی صورت ہی نہیں  ؟کیا یہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنَّمی ہیں  ؟

جواب :  جی ہاں   ان کو اہلِ ایمان کہنے کی کوئی صورت ہی نہیں   کہ قراٰنِ کریم پارہ اوّل سورۃُ البَقَرہ کی آیت نمبر 41میں   صَراحَۃًآگیا ہے :

آمِنُواْ بِ وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ۪- (پ۱البقرہ۴۱)

ترجمۂ کنز الایمان :  اور ایمان لاؤ اس پر جو میں   نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو ۔

            تو اب صاف ظاہِر ہے کہ یہودو نصارٰی نے مکّی مَدَنی آقامیٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر ایمان نہ لا کر کفر کیا اور قراٰنِ مجید نے ان کو کافر کہا تو اب ان کو اہلِ ایمان کہنے کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہی ۔  یہود و نصارٰی انکار کرنے کے سبب کافِر ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنَّمی ہو گئے اور جو ان کو جہنَّمی نہ مانے وہ بھی کافِر و دائِمی جہنَّمی ہے چُنانچِہ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلامفرماتے ہیں  : حضرتِ سیِّدناابنِ سلام علیہ رَحْمَۃُ ربِّ الْاَنام سے مروی ہے جو یہ کہے :  ’’  میں   نہیں   جانتا کہ جب قِیامت قائم کی جائے گی تو یہود و نصارٰی کو آگ کا عذاب دیا جائے گا ،  ‘‘  اس پر مشائخِ بَلخ سمیت تمام مشائخِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلامنے فتوٰی ارشاد فرمایا کہ ایسے شخص کی تکفیر کی جائے گی ۔     (عالمگیری ج۲ص ۲۷۴)

کافر کو اسلام کے قریب لانے کے لئے کفربکنا

سُوال :  اگر کوئی یہودو نصارٰی کو اسلام سے قریب لانے کے جذبے کے تحت ان کو خوش کرنے کیلئے انہیں   ایمان والا کہدے تو کیا اب بھی کفر ہے ؟

جواب : جی ہاں   اب بھی کفر ہے ۔  کسی کافر کو اسلام سے مانوس کرنے کی خاطِر خود کفریات بکنے کی اسلام ہرگز اجازت نہیں   دیتا ۔  یادرکھئے ! جو بِلااکراہِ شرعی([1])   کلمۂ کفر بَکے ، اس کی ظاہِری اچّھی نیّت کا کوئی اعتبار نہیں   ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اسی قسم کے ایک مسئلے میں   فتاوٰی  رضویہ جلد 14صَفْحَہ 600 پر فرماتے ہیں   :  ’’  اور بفرض غلط اگر دھوکا دینا ضَرورت بھی ہو تو ہر ضَرورت کفر سے نہیں   بچاتی ، یو ں   تو جو ننگے بھوکے پیٹ کی خاطِر عیسائی(یعنی کرسچین) ہو جاتے ہیں   انہیں   بھی کہئے کافِر نہ ہوئے کہ بَضَروت کُفر اختیا ر کیا، یہاں  وہ ضَرورت مُعتبر ہے کہ  حدِّاِکراہِ شَرعیتک پہنچی ہو ۔  ‘‘  (فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص ۶۰۰)

             یقینایہود ونصارٰی کو اپنے قریب لانے کا دعویٰ کرنے والے نے بِلا اِکراہِ شرعی وہ کلماتِ کفر بکے ۔ یہاں    ’’ اِکراہ  ‘‘ یعنی اس طرح کی دھمکی ملنا درکَنار ایک رُونگٹے کو بھی کچھ نقصان نہ پہنچتا تھا ، ایک دَھیلا (یعنی آدھا پیسہ )بھی گِرِہ (جیب )سے نہ جاتا تھا ۔ لہٰذا یہودی یا عیسائی( کرسچین) کو اسلام سے قریب لانے کیلئے اہلِ ایمان کہنا بھی کفر ہے ۔ جیسا کہ فُقَہائے کرام  رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام نے واضح طور پر ارشاد فرمایا :   ’’  ایک شخص نے زَبان سے حالتِ خوشی میں   کفر کا اِظہار کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر تھا تب بھی وہ کافر ہے اور وہ اللّٰہ