کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

سُوال : ابھی آپ نے جو بہارِ شریعت کا جُزئِیَّہ(جُز ۔ ئی ۔ یَہ) بتایا اُس کی تَسہِیل  یعنی آسان لفظوں   میں   وَضاحت کر دیجئے اورتَورِیَہ کرنے کا آسان طریقہ بھی بتادیجئے ۔

جواب :  تَورِیہ کے معنیٰ ہیں   ظاہِری اَلفاظ کچھ ہوں   اور مُراد کچھ ۔  مَثَلاً کِسی نے کہا :  کھانا کھا لیجئے ۔  حالانکہ آپ نے کھانا نہیں   کھایا تھا پھر بھی جواب یہ دیا کہ ’’  میں   نے کھانا کھا لیا ہے ۔  ‘‘  یہ جھوٹ ہوا ۔  اگر یہ جواب دیتے وقت دل میں  یہ نیّت تھی کہ ’’  میں   نے کل کھانا کھا لیا ہے  ‘‘ تو یہتَورِیَہ ہوا ۔ مگر یادرکھئے ! بِلا اجازتِ شَرْعی تَورِیَہ کرنا جائز نہیں   ۔ چُنانچِہ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   : توریہ یعنی لفظ کے جو ظاہِر معنی ہیں   وہ غَلَط ہیں   مگر اس نے دوسرے معنی مُراد لیے جو صحیح ہیں   ۔ ایسا کرنا بلاحاجت جائز نہیں   اور حاجت ہو تو جائز ہے ۔  توریہ کی مثال یہ ہے کہ تم نے کسی کو کھانے کے لیے بلایا وہ کہتا ہے میں   نے کھانا کھالیا ۔  اس کے ظاہر معنی یہ ہیں   کہ اس وقت کا کھانا کھالیا ہے مگر وہ یہ مُراد لیتا ہے کہ کل کھایا ہے یہ بھی جھوٹ میں   داخل ہے ۔   ( بہار شریعت حصہ ۱۶ ص ۱۶۰ ۔ ۱۶۱، عالمگیری ج۵ ص۳۵۲)  اب اصل مسئلہ (مَسْ ۔ ء ۔  لَہ ) سمجھنے کی کوشش فرمایئے مَثَلاً کسی نے آپ کو گَن پوائنٹ پر لے کر بُت سامنے رکھا اور مَعَاذَاللّٰہ کہا :   ’’ اس کو سجدہ کرو ۔  ‘‘  اگر آپ جانتے ہیں   کہ اِس کی بات نہیں   مانوں  گا تو واقِعی یہ گولی مار دے گا تو اب سجدہ کرنے میں   یہ نیّت کیجئے کہ ’’  میں   بُت کو نہیں   بلکہاللّٰہعَزَّوَجَلَّ  کو سجدہ کر رہا ہوں    ۔  ‘‘  یا اِسی طرح اُس نے کہا کہ مَعَاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ محمَّد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فُلاں   گالی دو ۔  تو گالی بکتے وقت محمَّد ٌرَّسولُ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی نیّت نہیں   بلکہ کسی دوسرے ایسے شخص کی نیّت کر لے جس کا نام محمد ہو مَثَلاً اپنے بھائی یا دوست یا پڑوسی کا نام محمدہے تو اُسی کا تصوُّر باندھ لے کہ میں   اُس محمد نامی آدمی کو گالی دے رہا ہوں   ۔ توریہکا مسئلہ جاننے ، طریقہ معلوم ہونے ، اُس وقت یاد ہونے اور ممکن ہونے کے باوُجُود اگر یہاں   توریہ نہیں   کریگا تو کفر کرنے کی صورت میں   خود کافر ہو جائے گا اوراگر اُس وقت توریہ کی طرف توجُّہ نہ گئی تو بُت کو سجدہ کرتے وقت یا  کفریہ بات بکتے وقت دل ایمان پر مطمئن ہے اور جو کچھ کرنے لگا ہے اُس کا دل اندر سے اِنکاری ہے تو اب کافِر نہ ہوگا ۔  

کیا جان بچانے کیلئے بظاہر کفر یہ فعل کرنا ضَروری ہے ؟

سُوال : اگر کوئی مسلّح کافِر قتل کی صحیح دھمکی دیکر بُت کو سجدہ کرنے کا حکم دے تو کیا جان بچانے کیلئے بُت کو سجدہ کرنا ضَروری ہو جائے گا ؟

جواب :  ایسی صورت میں   ’’ رُخصت  ‘‘  یہ ہے کہ بُت کو سجدہ کر لے جبکہ دل ایمان پر مطمئن ہو اور  ’’ عَزِیْمَت ‘‘  ( جو کہ افضل ہے وہ)یہ ہے کہ جان قربان کر دے مگر بُت کو سجدہ نہ کرے ۔

            ھِدایہ شریف میں   ہے :  ’’  اگر جان سے مار ڈالنے یا جسم کے کسی عُضْوْ کو ضائِع کر دینے کی صحیح دھمکی دیکر کسی سے کہا جائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکا اِنکار کر یامَعَاذ اللّٰہ سرکارِ مدینہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گالی دے تو اس کو اِجازت ہے کہ اس بات کا اظہار کردے جو اُسے ( ظالم کی طرف سے )  حکم دِیا گیا اورتَو رِیہ کرے  ۔ پس اگر اس نے ( ظالم کے کہنے کے مطابِق) ظاہر کردِیا اِس حال میں   کہ اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو تو اِس پر کوئی گناہ نہیں   اوراگر صَبْر کرے یہاں   تک کہ شہید کردیا جائے اور کُفْر کوظاہِر نہ کرے تو اس کو اللہ  عَزَّوَجَلَّ کے ہاں   اَجْر ملے گا ۔  ‘‘  ( ھِدایہ ج ۲ص ۲۷۴مُلَخَّصاً )

عزیمت کی مشہور ترین مثال

           میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  جب اکراہِ شرعی پایا جائے اُس وقت  رخصت ہے کہ دشمن کے مطالبہ پر کُفریہ کلمہ کہہ دے یا کفریہ فِعل بجالائے ۔  ( جبکہ دل ایمان پر جما ہوا ہو) اور جان بچا لے اور عَزِیمت یہ ہے کہ جان دیدے مگر دشمن کے دیئے جانے والے خلافِ شریعت حکم پر عمل نہ کرے اور عَزِیمت کی فضیلت زیادہ ہے ۔  عَزِیمت کی مشہور ترین مثال کربلا کا درد ناک واقِعہ ہے جس میں   رخصت ہونے کے باوُجُود امام عالی مقام سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عَزِیمت پر عمل کیا اور یزیدِپلید کی بَیعت سے انکار کرکے اہلِ بیتِ اطہار اور رُفَقائے جانثار سمیت اپنی جان قربان کر دی ۔    ؎

گھر لُٹانا جان دیناکوئی تجھ سے سیکھ جائے

جانِ عالم ہو فِدا اے خاندانِ اہلِبیت

اللّٰہُرَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے  صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔

                                      اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب !                                               صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

             اَلحمد لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ عَزِیمت پرعمل کرنے والے جواں  مردوں   سے تاریخِ اسلام کے اَوراق بھرے پڑے ہیں   ، اِس ضِمن میں   دو حکایات پڑھئے اور اپنا ایمان تازہ کیجئے ۔

(1) صَحابی نے جان قربان کر دی

            حضرتِسیِّدُناحسن بصری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بیان فرماتے ہیں   کہ ( نُبُوت کے جھوٹے دعویدار) مُسَیْلِمَۂ کذّاب کے جاسوس دو مسلمانوں   کو پکڑ کر اس کے پاس لے آئے ۔ اس نے ایک سے پوچھا : کیاتم گواہی دیتے ہو کہ(سیِّدُنا) محمد(  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) اللہ کے رسول ہیں  ؟ اُس مسلمان نے کہا :  ہاں  ۔ پھر مُسَیْلِمَہ نے پوچھا :  کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں   اللہ کارسول ہوں  ؟ فرمایا :  ’’  ایسی بات سننے سے میرے کان بہرے ہیں   ۔  ‘‘  اِس پر اُس ظالم نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کوشہید کرنے کا حکم دے دیا ۔  پھراُس نے  دوسرے

Index