جواب : کفر ہے ۔ کیوں کہمَعاذَاللّٰہ یہ اذان کا مذاق اُڑانا ہوا ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰنکی خدمتِ بابَرَکت میں سُوال ہوا : جناب کا کیا ارشاد ہے اس مسئلہ میں کہ زید نیمُؤَذِّنِ مسجِد کی اذان کے ساتھ تَمَسخُر (یعنی مذاق) کیا یعنی لفظ حیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ سُن کر یوں مُضْحَکہ( یعنی مذاق) اُڑایا : ( بَھیّالَٹھ چلا) آیا زَید کے لئے حکمِ اِرتِداد و سُقُوطِ نکاح ثابِت ہوا یا نہیں ؟ اور زَید کا نِکاح ٹوٹا یا نہیں ؟الخ ۔ الجواب : اذان سے اِستِہزا( یعنی مذاق کرنا) ضَرور کفر ہے اگر اذان ہی سے اُس نے اِستِہزا (یعنی مذاق) کیا تو بِلاشُبہکافِر ہو گیا، اس کی عورت اس کے نکاح سے نکل گئی ، یہ اگر پھر مسلمان ہو اور عورت اُس سے نِکاح کرے اُس وقت وَطی( یعنی ہم بستری) حلال ہو گی ورنہ زِنا ۔ اور عورت اگر بِلا اسلام و نِکاح اُس سے قُربت پر راضی ہو وہ بھی زانِیہ ہے ۔ اور اگر اذان سے اِستِہزا (یعنی مذاق اُڑانا) مقصود نہ تھا بلکہ خاص اُس مُؤَذِّن سے بَاِ یْں وجہ (یعنی اس وجہ سے )کہ وہ غَلَط پڑھتا ہے اِستہزا (یعنی مذاق اُڑایا)کیاتو اِس حالت میں ( نہ کافِر ہو گا نہ نکاح ٹوٹے گا مگر) زَید کو تجدیدِ اسلام و تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا ۔ واللّٰہُ تعالٰی اعلم ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۱ ص۲۱۵)
اذان کے مُتَعلِّق کُفرِیہ کلِمات کی8 مثالیں
{1}جو اذان کا مذاق اُڑائے وہ کافر ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۵ ص۱۰۲)
{2}اذان کی تحقیر کرتے ہوئے کہنا کہ ’’ گھنٹی کی آواز نَماز کی اطِّلاع دینے کے لئے زیادہ اچّھی ہے ‘‘ کفر ہے ۔
{3}جواذان دینے والے کواذان دینے پرکہے : ’’ تُو نے جھوٹ بولا ‘‘ ایسا شخص کافر ہو گیا ۔ (فتاوٰی قاضی خان ج۴ ص ۴۶۷ )
{4}جس نے کسی مُؤَذِّنکے بارے میں اذان کے مذاق کے طور پر کہا : یہ کون محروم ہے جواذان کہہ رہا ہے ؟ یا{5} اذان کے بارے میں کہا : غیر معروف سی آواز ہے یا کہا : {6} اجنبیوں کی آواز ہے ، یہ تمام اقوال کفر ہیں ۔ یعنی جب کہ بطورِ تحقیر (حقارت)کہے ۔ (مِنَحُ الرَّوض الاْزھَر للقاری ص ۴۹۵ )
{7}ایک نے اذان کہی دوسرا مذاق اُڑانے کے لئے دوبارہ اذان کہے تو اس پر حکمِ کفر ہے ۔ (مَجْمَعُ الْاَنْہُر ج۲ ص۵۰۹)
{8}اذان سُن کر یہ کہنا : کیا شور مچا رکھا ہے ! اگر یہ قول خود اذان کو ناپسند کرنے کی وجہ سے کہا ہو تو کُفر ہے ۔ (عالمگیری ج۲ص۲۶۹ )
نَماز کی توہین کے بارے میں سُوال جواب
سُوال : جان بوجھ کر بے وُضونَماز پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب : بِلاعُذرجان بوجھ کربِغیروُضو کے نَماز پڑھنا کفر ہے ۔ جبکہ اسے جائز سمجھے یا استہزاء ً (یعنی مذاق اڑاتے ہوئے ) یہ فعل کرے ۔ (مِنَحُ الرَّوض الاْزھَر للقاری ص۴۶۸)
’’ نَماز کی وجہ سے مُصیبتیں آتی ہیں ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : کسی نے نَمازی سے کہا : ’’ تُونَماز پڑھتا ہے اِس لئے تجھ پرمُصیبتیں آتی ہیں اب تُو ہی بُھگَت ۔ ‘‘ یہ قول کیسا ہے ؟
جواب : ایسا کہنا کُفْر ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جو نَمازیوں ، روزہ داروں پر ان کے نَماز ، روزہ کی وجہ سے طَعن وتَشنِیع کرے وہ کا فِر ہے ۔ (ماخوذازفتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص۳۵۶ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! نَمازکی وجہ سے مصیبتیں آتی نہیں دُور ہو جاتی ہیں ۔ اگر کبھی کوئی مصیبت آ بھی جائے تو نَماز کواُس کا سبب قرار نہیں دیا جا سکتاکہ بے نمازیوں پر بھی تو سخت سخت مصیبتیں آ تی ہیں ۔ جو مصیبت سے گھبرا کر شیطان کے بہکاوے میں آ کر بغاوت پر آمادہ ہو جاتا ہے وہ کتّے سے بھی گیا گزرا ہے ۔ مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں : خواجہ حسن بصری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : تمہارا پالا ہوا کتّا تمہارے ہاتھ سے سو بارمار کھائے پھر تم اسے ٹکڑا دکھاؤ تو دُم ہلاتا ( ہوا) آ جاتا ہے ، یہ صفت ہے خاشِعِین( رب سے ڈرنے والوں ) کی ۔ اے بندے ! اگر تجھ پر رب ہزار بار سختی ( آزمائش) کرے مگر تو حیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ<