صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت حصّہ 16 صَفْحَہ258 پر فرماتے ہیں : ’’ معصیت کا ارادہ کیا مگر اس کو کیا نہیں تو گناہ نہیں بلکہ اس میں بھی ایک قسم کا ثواب ہے ، جبکہ یہ سمجھ کر باز رہا کہ یہ گناہ کا کام ہے ، نہیں کرنا چاہیے ۔ احادیث سے ایسا ہی ثابت ہے اور اگر گناہ کے کام کا بالکل پکا ارادہ کرلیا جس کو عزم کہتے ہیں تو یہ بھی ایک گناہ ہے اگرچہ جس گناہ کا عزم کیا تھا اسے نہ کیا ہو ۔ ( عالمگیری ج۵، ص۳۵۲)
جب فِرِشتوں کا یہ مقام ہے تو آقا کی کیا شان ہو گی !
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! جب کراماً کاتِبین کو دل کی باتوں کا حال معلوم ہو جاتا ہے تو ان فِرِشتوں بلکہ ساری کائنات کے والی سرکارِ عالی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کسی کے دل کی بات کیسے چُھپی رہ سکتی ہے ! میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں ؎
سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
مَلکوت ومُلک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عِیاں نہیں (حدائقِ بخشش شریف)
’’ جیسی روح ویسے فِرِشتے ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : ’’ جیسی روح ویسے فرشتے ‘‘ یہ مُحاوَرہ بولنا کیسا ہے ؟
جواب : یہ جملہ بطورِ کہاوت بولا جاتا ہے اس لئے حکمِ کفر نہ ہوگا کہ یہاں مقصودفِرِشتوں کی توہین نہیں ۔ فیروز الُّلغات صَفْحَہ 533 پر اس کے معنیٰ لکھے ہیں : ’’ انسان خود بُرا ہوتا ہے تو اپنے ہی جیسے بُرے لوگ اور بُری چیزیں پسند کرتا ہے ۔ ‘‘ اِس طرح کے جملوں سے اِحتِراز(یعنی بچنا) چاہیے ۔
ہر شَخْص پر روزانہ 20 فِرِشتوں کی ذمّہ داریاں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! بعض لوگ کس قَدَر ناقدرے ہوتے ہیں کہ ملائکہ تک کو بھی مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تنقید کانشانہ بناتے اور ان کی توہین پر اُترآتے ہیں ۔ یقینا فِرِشتے معصوم ہیں اور ان کے ذَرِیعے ربِّ کائناتعَزَّوَجَلَّ نے ہم پر عظیم اِحسانات فرمائے ہیں ۔ انسان پرکچھ فرشتے مقرّر کئے گئے ہیں ، مختلف روایات میں ان کی جدا جدا تعداد بیان کی گئی ہے ان میں ایک ایمان افروز حدیثِ پاک یہ بھی ہے ۔ چُنانچِہ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عَفّان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نبیوں کے سلطان ، رحمتِ عالمیان ، سردارِ دو جہان، محبوبِ رحمن عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ والا شان میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے : ’’ یارَسُوْلَ اللہ ! عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجھے بتائیے کہ بندے کے ساتھ کتنے فِرِشتے ہوتے ہیں ؟ حُضُور سراپا نور، فیض گَنجور، شاہِ غَیُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اے عثمان ! ایک فِرِشتہ تیری دائِیں (سیدھی) طرف ہے جو تیری نیکیوں پر مامور ہے اور یہ بائیں (اُلٹی) طرف والے فِرِشتہ کااَمین ہے ۔ جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، جب تم کوئی گناہ کرتے ہو تو بائیں (اُلٹی) طرف والا فرشہ دائیں (سیدھی) جانب والے فرشتے سے پوچھتا ہے : (کیا) میں (اس کا یہ گناہ) لکھ لوں ؟ تو وہ کہتا ہے : نہیں ، شاید یہ (اپنے گناہ پر ) اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اِستِغفار کرے اور توبہ کرے ۔ تو جب بائِیں طرف والافِرِشتہ تین مرتبہ گناہ لکھنے کی اجازت مانگتا ہے تو ( دائیں طرف والا ) کہتا ہے : ہاں (اب لکھ لو) اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اِس سے محفوظ رکھے ، یہ کیسا بُرا ساتھی ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّکیمُتَعلِّق کتنا کم سوچتا ہے اورہم سے کس قَدَر کم حیا کرتا ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(۱۸) (پ ۲۶ قٓ ۱۸)
ترجَمۂ کنزالایمان : کوئی بات وہ زَبان سے نہیں نکالتا کہ اُس کے پاس ایک محافِظ تیاّر نہ بیٹھا ہو ۔
اور دو فِرِشتے تمہارے سامنے اور پیچھے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِؕ- ( پ۱۳ الرعد ۱۱)
ترجَمۂ کنزالایمان : آدمی کے لئے بدلی والے فرشتے ہیں اُس کے آگے پیچھے کہ بحکمِ خدا اُس کی حفاظت کرتے ہیں ۔
اور ایک فِرِشتے نے تمہاری پیشانی کو تھاما ہوا ہے ، جب تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے تواضُع(یعنی انکساری) کرتے ہو تو وہ تمہیں بُلند کرتا ہے اور جب تم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر تکبُّر کا اظہار کرتے ہو تو وہ تمہیں تباہی میں ڈال دیتا ہے ۔ اور دو فِرِشتے تمہارے ہونٹوں پر (مُتَعَیَّن) ہیں ، وہ تمہارے لئے صِرف محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُود پڑھنے کو محفوظ کرتے ہیں اور ایک فِرِشتہ تمہارے منہ پر مُقرَّر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ داخِل ہونے نہیں دیتا ۔ اور دو فِرِشتے تمہاری آنکھوں پر مُقَرَّر ہیں ۔ یہ کل دس فِرِشتے ہیں جو ہر انسان پر مُقرَّر ہیں ۔ رات کے فِرِشتے دن کے فِرِشتوں پراُترتے ہیں ، کیونکہ رات کے فِرِشتے دن کے فِرِشتوں کے عِلاوہ ہوتے ہیں ۔ یہ بیس فِرِشتے ہر آدمی پر مُقرَّر ہیں ۔ (تفسیرالطّبری ج۷ ص۳۵۰حدیث ۲۰۲۱۱ )
ملکُ الموت کو سخت دل کہنا کیسا ؟
سُوال : ایک عورت کہہ رہی تھی : اللّٰہ تَعَالیٰ نے جب حضرت عِزرائِیلعَلَیْہِ السَّلَام کو حکم دیا کہ لوگوں کی رُوْح تم قبض کیا کروگے ۔ تواُنہو ں نے انکار کردیا ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دوبا رہ حکم دیا ۔ اُنہوں نے پھر انکار کرتے ہوئے عرض کی : اے میرے رب ! عَزَّوَجَلَّ میں یہ کام نہیں کرسکتا، میرا دل بَہُت نَرْم ہے ، میں کسی کو تکلِیف نہیں دے سکتا ۔ حکم ہوا : تمہیں یہ کام کرنا ہی ہو گا اور رُوح قبض کرنا کوئی بُر ا کام بھی نہیں ۔ چُنانچِہ حضرتِ عِزرائِیلعَلَیْہِ السَّلَام لوگوں کی رُوحیں قبض کرنے لگے ، یہاں تک کہ آپ