سے بے قرار ہو جاتے چُنانچِہاُمُّ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : ’’ جس دن آندھی چلتی اور آسمان پر بادَل گِھرجا تے تومیرے سر تاج ، صاحِبِ مِعراج صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چِہرۂ انور کا رنگ مُتَغَیِّر(مُ ۔ تَ ۔ غَیْ ۔ یِر) ہو جاتا(یعنی بدل جاتا ) اورآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (اِضطِراب کی وجہ سے )کبھی اندر آتے کبھی باہَر تشریف لے جاتے ، پھر جب بارِش ہو جاتی تو یہ کیفیَّت ختم ہوجاتی ۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا : ’’ اے عائِشہ ! مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں یہ بادَل عذاب کا نہ ہو جو میری اُمّت پر بھیجاگیا ہو ۔ ‘‘ (صحِیح مُسلِم حد یث ۸۹۹، ص۴۴۶)
جب تیز ہوا چلتی تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اِس ضِمن میں ایک ولیُّ اللہ کی حکایت مُلاحَظہ فرمایئے : حضرتِ سیِّدُنا عَطاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے خوفِ خدا کا حال یہ تھا کہ جب آندھی آتی یعنی تیز ہوا چلتی تو بیقرار ی کے عالم میں کبھی کھڑے ہو جاتے تو کبھی بیٹھ جاتے ، کبھی باہَر نکلتے تو کبھی اندر تشریف لے جاتے ، اپنے پیٹ کی کھال کو پکڑ لیتے یعنی آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کاایسا حال ہوجاتا جیسے حامِلہ عورت کا دردِ زِہ میں ( یعنی بچّہ کی ولادت کی سخت تکلیف کے وَقت) ہو جاتا ہے ۔ ( تَنبِیْہُ الْمُغتَرِّیْن ص ۱۶۸)
سُوال : بِغیر ڈھول ڈَھمکّے کے شریعت کے مطابق سادَگی والی شادی کی برات دیکھ کر زید نے کہا : یہ دیکھو ! جنازہ جا رہا ہے ! زید کا قول کیسا ہے ؟
جواب : اسی طرح کے ایک سُوال کے جواب میں صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : یہ قول بَہُت سخت ہے (۱) اگر اس سے مقصود شرع شریف کی توہین ہے تو کُفر ہے اور (۲)اگر محض اِس برات سے اِستِہزا(مذاق اُڑانا) ہے یہ مقصود نہ ہو کہ شَرعی بَرات ہونے کی وجہ سے یہ مسخرا پن کرتا ہے تو بُرا کیا ۔ پہلی صورت میں یعنی جبکہ مقصود توہینِ شرع ہے ، (توبہ و تجدیدِ ایمان کے ساتھ ساتھ ) بی بی سے نِکاح دوبارہ کرنا ضَرورہے اور دوسری صورت میں بھی اگر چِہ کُفر نہیں ، مگر اس قول میں چُونکہ توہینِ شرع کا پہلو نکلتا ہے ۔ لہٰذا (توبہ و تجدیدِ ایمان اور ) تجدیدِ نکاح کرلے ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (فتاوٰی امجدیہ ج۴ ص ۱۴۱)سادگی والی شادی میں کسی جائز خوشی کابھی اظہار نہ ہو، بالکل خاموشی بلکہ رنج و غم کی کیفیت ہو یا مُراقَبۂ موت کے اشعار کی تکرار پر براتی اشکبار ہوں اگر ایسی صورت میں کوئی اِس وجہ سے اُس کو جنازہ سے تعبیر کرے کہ شادی کی برات میں کچھ تو جائز خوشی کااظہار کرنا ہی چاہئے تھا تو نہ کفر ہے نہ گناہ ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! زیادہ بولنے والے ، غیر سنجیدہ اور مذاق مسخری کے عادی کی زَبان سے فُضُولیات کے ساتھ ساتھ کُفرِیّات نکلنے کے کافی خطرات رہتے ہیں ۔ اللّٰہُ ربُّ العزتعَزَّوَجَلَّ ہمیں سنجیدَگی اور کم گوئی کی سعادت عنایت کرے ۔ نیز ’’ میں میں ‘‘ کرنے والوں ، حُبِّ جاہ کے مریضوں اور بِالخصوص مَغروروں سے بھی کُفریہ کلموں کے صُدُور کا امکان رہتا ہے ۔ کاش ! ہمیں حقیقی عاجِزی نصیب ہو جائے ۔ آئیے آپ کو عاجِزی کی ایک نرالی حکایت سناؤں چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا داوٗد طائی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمتِ بابَرَکت میں ایک شخص حاضِر ہوا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آمد کا مقصد دریافت کیا تو عرض کی : زِیارت کیلئے حاضِر ہوا ہوں ۔ فرمایا : حُسنِ ظن کی بِنا پر (مجھے نیک آدمی سمجھتے ہوئے میری)زِیارت کیلئے آ کر تم نے اپنے لئے تو اچّھا کام کیا مگر میرا کیا بنے گا ! اگر مجھ سے پوچھا گیا کہ تُو کون ہوتا ہے جس کی زِیارت کی جائے ! تو کیا جواب دوں گا ! اگر سُوال ہوا، کیا تُو عابِدوں (یعنی عبادت گزاروں ) میں سے ہے ؟ تو میرا جواب یِہی ہو گا : خدا کی قسم ! ان میں سے نہیں ہوں ۔ اگر کہا جائے : کیاتو زاہِدوں (یعنی دنیا سے بے رغبت رہنے والوں )میں سے ہے ؟ تو یہی جواب دوں گا : خدا کی قسم ! ان میں سے بھی نہیں ہوں ۔ یہ فرمانے کے بعد اپنے آپ کو ڈانٹتے ہوئے فرمانے لگے : ’’ اے داوٗد ! تُو جوانی میں نافرمان تھا، ادھیڑ عمر میں دھوکہ باز بنا اور اب جبکہ بُڑھاپا آیا تو رِیا کار ہوگیا ہے ! ‘‘ یہ فرمانے کے بعد دعا کی : اے آسمانوں اور زمینوں کے معبود ! مجھے اپنی رحمت سے ایسا نواز دے جو میرے شباب کی اصلاح کر دے ، مجھے تمام بُرائیوں سے محفوظ فرما اورصالحین(یعنی نیک بندوں ) کے اعلیٰ مقامات میں میرا مقام بُلند فرما ۔ ( بحرالدُّموع لابن الجوزی ص۵۸)
سیِّدُنا داوٗد طائی کی عظمت کی جھلکیاں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! آپ نے حضرتِ سیِّدُنا داوٗد طائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عاجِزی مُلاحَظہ فرمائی ! آ پ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بَہُت بڑے ولیُّ اللہ بلکہ قُطبُ الاَْقطاب شُمار کئے جاتے تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے اَجِلَّۂ تَلامِذہ (یعنی بُلند پایہ شاگردوں ) میں سے ایک تھے ۔ مُحَرِّ رِ مذہب حضرتِ سیِّدُنا امام محمد علیہ رَحمۃُ اللّٰہِ الْاَحَد مُشکِل اِجتِہادی مسائل کے حل کیلئے آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس آیا کرتے تھے ۔ عبادت و تِلاوت کی خوب کثرت فرماتے تھے ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
’’ جی چاہتا ہے یہودی ہو جاؤ ں ‘‘ مذاقاً ایسا کہنا کیسا ؟
سُوال : کسی نے مذاق میں کہا : ’’ بس جی چاہتا ہے یہودی یا قادیانی بن جاؤں ! ‘‘ اس میں کوئی حَرَج تو نہیں ؟
جواب : حَرَج کیوں نہیں ! زبردست حرج ہے ۔ بلکہ کفر ہے کہ اس میں کفر پر راضی ہونا پایا جارہا ہے ۔ اِسی طرح کے ایک سُوال کے جواب میں میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 14 صَفْحَہ 583پر فرماتے ہیں : ’’ جس نے جس فرقے کانام لیا اُس فرقہ کا ہو گیا، مذاق سے کہے یا کسی