کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

بِالخصوص بھیڑکے موقع پر اِدھر اُدھر دیکھتے ہی نہیں   کہ مَبادا(یعنی ایسا نہ ہو کہ) شرعاًجس کی اجازت نہ ہواس پر نظر پڑجائے  ! (گزرے ہوئے نیک بندوں   کی ایک علامت بیان کرتے ہوئے )حضرتِ سیِّدُنا داوٗد طائیرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا :  نیک لوگ فُضول اِدھر اُدھر دیکھنے کو ناپسند کرتے تھے ۔ (اَیضاًص۲۰۴)اللّٰہُرَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

کوئی دیکھ تو نہیں   رہا !

            حضرتِ سیِّدُنا فرقد سنجی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں   : مُنافِق جب دیکھتا ہے کہ اُسے کوئی(آدمی) نہیں   دیکھ رہا تو وہ گُناہ کر ڈالتا ہے ۔  افسوس !  کہ وہ اِس بات کا توخیال رکھتا ہے کہ لوگ اُسے نہ دیکھیں  مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ دیکھ رہا ہے اس بات کا لحاظ نہیں   کرتا ۔ (اَیْضاًص۱۳۰) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  

چھپ کے لوگوں   سے کئے جس کے گناہ                         وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے

                               ارے اَو مُجرم بے پروا دیکھ                            سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے (حدائقِ بخشش شریف)

            مَدَنی التِجاء : سنتّوں   بھرے بیان کا کیسٹ بنام :   ’’  اللہ دیکھ رہا ہے  ‘‘  مکتبۃ المدینہ سے  ہدِیَّۃًحاصل کرکے خود بھی سُنئے اور گھر والوں   کو بھی سنائیے اِن شاء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  انتہائی مفید پائیں   گے ۔

 ’’ اوپر اللہ کا سہارا  ‘‘  کہنے کاحُکمِ شَرعی

سُوال :  کسی سے یوں   کہنا کیسا ہے کہ ’’   اُوپراللہ کا سہارا ‘زَمین پر آپکا سہارا ۔  ‘‘

جواب :  کُفْر ہے کہ ا س میں   اللّٰہتَبَارَکَ وَتَعَالٰی کے لئے مکان و سَمت کو ثابِت کیا جارہا ہے ۔

اللہعَزَّوَجَلَّ کو ’’  ا وپر والا  ‘‘ کہنا کیسا ؟

سُوال : اللہ عَزَّوَجَلَّکی ذات  کے لیے اُوپر والا، بولنا کیسا ہے ؟

جواب : اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَا لٰیکی ذات کے لئے لفظ  ’’  اُوپر والا  ‘‘  بولنا کُفْر ہے کہ اِس لفْظ سے اسکے لئے جِہَت(یعنی سَمت) کا ثُبُوت ہوتا ہے اور اسکی ذات جِہَت (سَمْت) سے پاک ہے جیسا کہ حضرت علَّامہ سعدُ الدِّین تَفْتازَانِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الوالی  فرماتے ہیں   :  ’’  اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مکان میں   ہونے سے پاک ہے اور جب وہ مکان میں   ہونے سے پاک ہے توجِہَت(یعنی سَمت) سے بھی پاک ہے ، (اِسی طرح ) اُوپر اور نِیچے ہونے سے بھی پاک ہے  ۔  ‘‘  (شرحُ الْعقائدص۶۰) اور حضرتِ علّامہ ابنِ نُجَیم مِصریرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نقل  فرماتے ہیں   :  ’’ جواللہ  عَزَّوَجَلَّ کو اُوپر یا نِیچے قرار دے تو اُس پر حکمِ کُفر لگایا جائے گا ۔   ‘‘  ( اَلْبَحْرُ الرَّائِقج ۵ ص ۲۰۳ )لیکن اگر کوئی شخْص یہ جملہ بُلندی و برْتَری کے معنیٰ میں   استعمال کرے تو قائِل پر حُکْمِ کفر نہ لگائیں   گے مگر اِس قَول کو بُرا ہی کہیں   گے اورقائِل کو اِس سے روکیں   گے ۔ (فتاویٰ فیض الرسول ج۱ ص۲)

 ’’ اللہ مسجِد، مندَر ہر جگہ ہے  ‘‘  کہنا

 سُوال :  کسی نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ  ہر جگہ ہے ، کعبہ میں   بھی ہے ، مسجد میں   بھی ہے ، مندَر میں   بھی ہے اور گِرجا میں   بھی ہے  ‘‘  کہنے والے کیلئے کیا حکم ہے ؟

جواب : کہنے والے پر لُزُومِ کُفر کا حکم ہے کیوں   کہ اِس میں  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مکان  ثابِت کیاگیا ہے ۔  اس طرح کے کلمات حمدیہ کلام میں   بعض نعت خوان پڑھتے ہیں  ، ان کو توبہ وتجدید ایمان و تجدیدِ نکاح کرنا چاہئے ۔

 ’’ اللّٰہ مکان سے پاک ہے  ‘‘  اس کی وضاحت

سُوال : آج کل عموماً عوام یہ کہتے سنائی دیتے ہیں   کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ   اوپر رہتا ہے ، اُس کا آسمان پر مکان ہے ۔  بے شمار لوگ یوں   بھی بولتے ہیں   کہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ  ہر جگہ ہے ۔ حالانکہ اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ خدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ  جگہ و مکان سے پاک ہے ۔ مہربانی کر کے اس کی وَضاحت کر دیجئے ۔

جواب : بے شک اللّٰہُ الرَّحمٰنعَزَّوَجَلَّ جگہ و مکان سے پاک ہے ۔ دراصل فلمیں   ڈِرامے دیکھ دیکھ کر اور بیہُودہ غزلیں   اور فِلمی گانے سُن سُن کر بَہُت سے لوگوں   کے ذِہنوں   کے اندرسُوال میں   مذکورہ کُفری عقیدہ جم گیا ہے ۔  اور ان لوگوں   سے سُن سُن کر اولاد دَر اولاد ذِہنوں   میں  معاذاللہعَزَّوَجَلَّ یہ عقیدہ  مُنتقل ہوتا جا رہا ہے ۔ علمِ دین و علمائے دین سے دُوری کے باعث اللّٰہُ الرَّحمٰنعَزَّوَجَلَّ کا جگہ اورمکان سے پاک ہونا بعض اَذہان قَبول نہیں   کر پاتے ۔ خدائے حنّان و مَنّان جلَّ جلا لُہٗ کے جگہ و مکان سے پاک ہونے پر یوں   تو بے شمار دلائل ہیں   مگر میں   صرف ایک دلیل عرض کرنے کی کوشِش کرتا ہوں  ، اِنْ شاء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قَبولِ حق کاجذبہ رکھنے والا ذِہن فوراً قبول کر لے گا ! یہ بات ذِہن نشین فرما لیجئے کہ اللّٰہُ کریمعَزَّوَجَلَّ قدیم ہے یعنی ہمیشہ ہمیشہ سے ہے ۔  وہ تب سے ہے کہ جب اب تب کب، یہاں   وہاں   اوپر نیچے ، دائیں   بائیں   وغیرہ کچھ بھی نہ تھا ۔  اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی صفات کے علاوہ ہر چیز حادِث ہے ۔  حادِث ، قدیم کی ضد ہے ۔  حادِث یعنی وہ کہ جو عدم سے وُجود میں   آئے ۔ اِس کو اور آسان لفظوں   میں   یوں   سمجھئے کہ جو پہلے سے نہ تھا مگر بعد میں   موجود ہو  ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان  اللّٰہُ