(5) ایک گناہ کے مقابلے میں ہزاروں سال کی عبادت بھی کم ہے
حضرتِ سیِّدُناعطاء رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ خوفِ خدا کی شدّت سے چالیس سال تک اپنے بستر پرپڑے رہے ، ان میں کھڑے ہونے کی سَکَت (طاقت) نہیں تھی حتّٰی کہ بستر ہی پر وُضو فرمایا کرتے تھے ۔ آپرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بیمار پُرسی کی جاتی تھی ۔ کسی عبادت گزار بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو جب یہ خبر پہنچی تواُنہوں نے فرمایا : چالیس سال کی کیا حیثیَّت ہے ! اللّٰہعَزَّوَجَلَّکی قسم ! اگر کوئی اپنے سر کے بالوں کی تعداد کے برابر ہزاروں سال اللّٰہُربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی عبادت کرے تب بھی اُس ایک گناہ کے مقابلے میں یہ کم ہے جس کا ارتکِاب بندہ کرتا ہے ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
(6) عمر بن عبدُالعزیز کے خوف کا نِرالا انداز
حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہحضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمہ بنتِ عبد ُالمَلِکرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ افرماتی ہیں : میں نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیزرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے بڑھ کرکسی کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا ۔ جب وہ ہمبِستری کے لیے بیٹھتے تو کانپ جاتے اوربِسمِل( یعنی ذَبح شُدہ پرندے )کی طرح تڑپ کر گر جاتے ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
(7) حقیقی خوف یہ ہے کہ گناہ ترک کر دے
حضرتِ سیِّدُنا اِسحاق بن خلف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : خوفِ خدا والا وہ نہیں جو روتا ہے اور اپنی آنکھیں ملتا ہے ، ڈرنے والا تو وہ ہے جو خوفِ خدا کے سبب گناہوں کو ترک کردے ۔ (تنبیہ المغترین ص ۱۶۸ ، ۱۶۹ ) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
سُوال : کُفّار رَحمت سے مایوس ہوں گے یا نہیں ؟
جواب : یقینا وہ مایوس ہیں اور قیامت کے دن بھی مایوس ہوں گے ۔ پارہ 13سورۂ یوسُفکی آیت نمبر87میں ارشاد ہوتا ہے :
اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ(۸۷)(پ۱۳یوسف۸۷)
ترجَمۂ کنزالایمان : بے شک اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)کی رَحمت سے ناامّید نہیں ہوتے مگر کافِر لوگ ۔
فوتگی میں بکے جانے والے کفریّات کے بارے میں سُوال جواب
’’ اللہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : چھوٹے بھائی کی فوتگی پر بڑے بھائی نے صدمے کی وجہ سے کہا کہ ’’ اللہ تعالیٰ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ ‘‘ بڑے بھائی کیلئے کیا حکم ہے ؟
جواب : یہ کہنا کفر ہے ۔ کیونکہ کہنے والے نے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کیا ۔
’’ نیک لوگوں کی اللہ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : ایک نیک نَمازی آدَمی فوت ہوگیا، اس پر پڑوسی نے کہا : ’’ نیک لوگوں کو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے ۔ ‘‘ پڑوسی کا یہ قول کیسا ہے ؟
جواب : پڑوسی کا قول کُفریہ ہے ۔ اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کسی کا بھی محتاج نہیں ، وہ بے نیاز ہے ۔ چُنانچِہ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامفرماتے ہیں : ’’ کسی نے مُردے کے بارے میں کہا : ’’ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ تم سے زیادہ اس کاحاجتمندہے ‘‘ یہ کہنا کفر ہے ۔ ‘‘ (مِنَحُ الرَّوْض ص۳۱۸)
’’ یہ اللّٰہ کو چاہئے ہوگا ‘‘ کہنا کیسا ہے ؟
سُوال : ایک ننّھا مُنّا بچّہ چھت سے گر کر فوت ہو گیا ، تعزِیَت کرنے والی ایک عورت بولی : ’’ آپ کاپھول جیسا بچّہ اللہ پاک کو چاہئے ہو گا اِسی واسِطے اُس نے لے لیا ہو گا ۔ ‘‘ اُس عورت کا یہ کہنا کیسا ہے ؟
جواب : اُس عورت نیکُفربک دیا ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام فرماتے ہیں : کسی کا بیٹا فوت ہوگیا ، اُس نے کہا : ’’ اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت ہوگی ‘‘ یہ قول کفر ہے ۔ کیونکہ کہنے والے نے اللہ تعالیٰ کو محتاج قرار دیا ۔ ( اَلْبَزَّازِیَّۃعلٰی ہامِش الْفَتَاوَی الْہِنْدِیَّۃ ج۶ ص۳۴۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! جس کا پھول جیسا بچّہ اچانک فوت ہو جائے اُس کا صدمہ وُہی سمجھ سکتا ہے ، مگر واویلا مچانے ، چیخنے چلّانے سے بچّہ واپَس نہیں آتا، صبر کرنا چاہئے ۔ بچّہ کی وفات پر صبر کرنے کے فضائل پر مشتمل دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مُلاحَظہ فرمائیے اور جھومئے :
<