کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

          افسوس !  صدکروڑ افسوس !  آج کل فلموں   ڈِراموں  ، فلمی گانوں   ،  اخباری مضمونوں   ، جنسی و رُومانی ناوِلوں  ، عِشقیہ وفِسقیہ افسانوں  ، بچّوں   کی بیہودہ کہانیوں  ، طرح طرح کے بے تکے  ہفت روزوں  ، حیاسوز ماہناموں   اورمُخَرِّبِاَخلاق ڈائجسٹوں   اورمُزاحِیہ چُٹکُلوں   کی کیسٹوں   وغیرہ کے ذَرِیعے کُفرِیّہ کلمات عام ہوتے جا رہے ہیں   ۔

کُفرِیہ کلمات کے مُتَعَلِّق عِلْم  سیکھنا فرض ہے

           یاد رکھئے  ! کُفرِیَّہ کلمات  کیمُتَعَلِّق علم حاصِل کرنا فرض ہے ۔  چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 624 پر فرماتے ہیں  : مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ : (یعنی باطِنی ممنوعات مَثَلاً)تکبُّرو رِیا وعُجَب (یعنی خود پسندی)و حسد وغیرہا اور اُن کے مُعَالََجَات (یعنی علاج) کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر  اَہَم فرائض سے ہے ۔ ([1])مزید صَفْحَہ 626 پر    فتاوٰی شامی کے حوالے سے فرماتے ہیں  : حرام الفاظ اورکُفرِیَّہ کلماتکے مُتَعَلِّق علم سیکھنا فرض ہے ، اِس زمانے میں   یہ سب سے ضَروری اُمُور ہیں  ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۱ ص۱۰۷)

کُفرِیہ کلمات سے مُتَعَلِّق اَہَم ضابِطہ

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !   قول کا کفر ہونا اور بات اور قائل ( یعنی کہنے والے ) کو کافِر مان لینا اور بات ہے ۔  کفرِ لُزومی ( جسے فِقہی کُفر بھی کہتے ہیں   )کے مُرتکِب کو بھی اگر چِہ فُقَہائے کرام   رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام کافر کہتے ہیں   ۔ مگر عُلمائے مُتَکَلِّمِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المُبین کُفرِ لُزومی والے کی تکفیر نہیں   کرتے ۔  ’’ کُفرِاِلتِزَامی ( کی تعریف )یہ (بیان کی گئی ہے ) کہ ضَروریاتِ دین سے کسی شئے کا تَصرِیحاً (یعنی صاف صاف ) خِلاف کرے یہ قَطْعاً اِجماعاً( یعنی سب کے نزدیک)کُفرہے ۔  ‘‘  عُلَمائے  مُتَکَلِّمین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المُبینکا طریقہ ہی زیادہ مُحتاط ہے ۔  میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی  رضویہ جلد15 میں    کُفرِیَّہ کلمات پر فُقَہا ئے کرام  رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام کافتوٰیٔ کفر ذکر کرنے کے بعد آگے چل کرصَفْحَہ445 پر فرماتے ہیں   :  ’’ اگرچِہ ائمّۂ مُحَقِّقِین وعُلَمائے مُحتاطِین انھیں   کافِر نہ کہیں   اوریِہی صَواب( یعنی صحیح ) ہے  ۔ ھُوَالْجَوَابُ وَبِہٖ یُفْتٰی وَعَلَیْہِ الْفَتْوٰی وَہُوَ الْمَذْ ہَبُ وَعَلَیْہِ الْاِعْتِمَادُ وَفِیْہِ السَّلَامَۃُ وَفِیْہِ السَّدَادُ ۔ یعنی ’’  یہی جواب ہے ، اِسی کے ساتھ فتویٰ دیا جاتا ہے ، اِسی پر فتویٰ ہے ، یِہی مذہب ہے ، اسی پر اعتماد ہے ، اسی میں   سلامتی ہے اور یِہی دُرُست ہے ۔  ‘‘ لہٰذا میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  اگر آپ کو کسی مسلمان کا قول یا فِعل بظاہِر کفر نظر آئے تب بھی جذبات میں   آ کر محض اپنی اٹکل سے اُس کو کافِر و مُرتَد نہ ٹھہرائیں   ، مُفتیانِ اہلسنّت کی خدمت میں   رُجوع لائیں  ، وہ جس طرح فرمائیں   اُسی کو عملی جامہ پہنائیں    ۔

بِغیر علم کے دینی بحثیں   کرنے والوخبردار !

             دین کے مُتَعَلِّقجو بات یقینی طور پر معلوم ہووُ ہی بیان کرنی چاہئے ، زیادہ عقل کے گھوڑے دوڑانا ایمانیات کے مُعاملے میں   انتِہائی خطرناک ہوتا ہے کہ ٹھوکر لگنے پر آدمی بسا اوقات کُفریات کی گہری کھائی میں   جا پڑتا ہے اور اُسے اِس بات کا پتا تک نہیں   چلتا کہ اس کا ایمان برباد ہو چکا ہے ! چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی  رضویہ جلد 24صَفْحَہ159 تا160پر فرماتے ہیں   : امام حُجَّۃُ الْاِسلاممحمد غزالی پھر علامہ مَناوی شارِح جامِع صَغیر پھر سیِّدی عبد الغنی نابَلُسی حَدیقہ میں   فرماتے ہیں  :  ’’ کوئی آدمی بدکاری اور چوری کرے تو باوُجُود گناہ ہونے کے اس کے لئے یہ عمل اتنا مُہْلِک(ہلاک خیز) اور تباہ کُن نہیں   جتنا بِلا تحقیق علمِ الہٰی کے بارے میں   کلام کرنا مُہلِک(یعنی ہلاک کرنے والا) ہے کیونکہ بِلا تحقیق اور بِغیر پُختگیٔ علم کے کہیں   وہ کُفر کا مُرتکِب ہو جائے گا اور اسے علم بھی نہیں   ہوگا !  اِس کی مِثال ایسے ہی ہے جیسے تَیرناجانے بِغیر دریا کی موجوں   اور لہروں   پر سُوار ہونے کے ، اور شیطان کی فریب کاریاں   جو عقائد اور مذاہب سے تعلُّق رکھتی ہیں   کوئی ڈھکی چھپی نہیں   ہیں ۔ اور اللہ  عَزَّوَجَلَّ سب کچھ خوب جانتا ہے ۔   ‘‘    (اَلْحدِیْقَۃُ النَّدِیَّۃ ج ۲ ص ۲۷۰ )

مفتیٔ دعوتِ اسلامی کی فرمائش

          پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! مفتیٔ دعوتِ اسلامی الحاج مفتی محمد فاروق عطاری مَدَنی علیہ رحمۃ اللّٰہِ الغنی کی فرمائش اور انہیں   کے تعاوُن سے اُمّت کی خیر خواہی کے مقدّس جذبے کے تحت  ’’ کُفرِیَّہ کلِمات کے بارے میں   سُوال جواب  ‘‘ کاکام شروع ہوا تھا، پھر اِس میں   طویل وَقفہ آ گیا ۔ یہ کام دشوار ہی نہیں   دشوار ترین تھا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ میں   نے کبھی کبھی معمولی سا قلم تو چلایا ہے مگر زندگی میں   کبھی اتنے نازک اورکٹھن موضوع پر قلم اُٹھانے کی جُرأَت نہیں   کی تھی ۔  بہرکیف اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّکی اعانت اور نبیِّ رَحمت کی حمایت  کے بھروسے ہمّت کر کے دوبارہ کام شروع کیا اور بِالآخر چند بے رَبط فِقرات ترتیب دینے میں   کامیابی حاصِل ہوئی ۔  غالباً اِس عُنوان پر اُردو زَبان میں   اِس طرح کی کوئی کتاب اِس سے پہلے کبھی منظرِ عام پر نہیں   آئی ۔ انداز حتَّی الامکان آسان رکھا ہے ، کہیں   کہیں   قصداً مشکل الفاظ لکھ کراِعراب لگا کر ثوابِ آخِرت کی نیَّت سے ہلالین میں   ان کے معنی بھی لکھ دیئے ہیں   تا کہ اسلامی بھائیوں   کو دیگر دینی کُتُب کے مُطالَعَہ میں   سہولت ہو کہ ہر کتاب میں   اِس طرح کا انداز نہیں   ہوتا مگر میں   نے اِس کتاب میں   کہیں   بھی فَقَط اپنی رائے سے کوئی حکمِ شرعی قائم نہیں   کیا ۔  دیگرکُتُب کے ساتھ ساتھ بِالخصوص فتاوٰی رضویہ شریف سے خوب خوب رہنُمائی حاصِل کی ہے اور پھر دعوتِ اسلامی کی مَدَنی مجلس المدینۃُ العلمیۃکیعُلَمائے کرام  دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  سے تخریج و نظرِ ثانی کروائی ہے ۔ نیز مفتیانِ اہلسنّت کَثَّرَھُمُ اللّٰہُ تَعالٰی(اللہ عَزَّوَجَلَّ  ایسوں   کی کثرت فرمائے  ۔ اٰمین) نے اِس کتاب کو بِالاِْسْتِیعاب( یعنی از ابتِداتا انتِہا) پڑھا  / سنا ہے



[1]    اِحیاء العلوم جلد3 میں مُتَعدِّد باطِنی امراض کابیان کیاگیا ہے ، اس کا بغورمُطالَعہ کرنا نیز مکتب

Index