کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

قراٰنِ پاک پڑھانے والے  کی نقّالی

سُوال :  قراٰن شریف پڑھانے والے کی مذاق اُڑانے کے انداز میں   نقّالی کرنا کیسا ؟

جواب : کفر ہے ۔ فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامفرماتے ہیں   : جو مذاق اُڑانے کے طور پر قراٰن شریف پڑھانے وا لے اُستاذ کی طرح ڈنڈا پکڑ کر بچّوں   کو سمجھاتا ہے اُس پر حکمِ کفر ہے کیونکہ قراٰنِ پاک پڑھانے والا بھی علماء شریعت کی طرح ہے ، پس قراٰنِ کریم یا قراٰنِ کریم کے پڑھانے والے سے اِستِہزاء(مذاق اُڑانا) کفر ہے ۔  (منح الروض الازھر للقاری ص ۴۷۱)

سورۂ لَہَب کی توہین

سُوال :  جوپورے قراٰنِ پاک کی نہیں   فَقَط اُس کے کسی حصّے کی توہین کرے مَثَلاً کہے :    اللہ   عَزَّوَجَلَّ کو چاہئے تھا کہ سُورۂ لَہَب  نازِل نہ فرماتا ۔

جواب :   اِس قَول میں    ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ  پر  اعتِراض ہے اور یہ کفر ہے ۔ یاد رکھئے  ! جوشخص قراٰن شریف یا اس میں   سے کسی حصہ کی توہین کرے یا اس کو گالی دے یا اس کا انکار کرے یا اس کے کسی حَرف کا یا کسی آیت کا انکار کرے یا اس کوجُھٹلائے یا اس کے کسی حصہ یاکسی حکم کو جھٹلائے جس کی اس میں  تَصریح کی گئی ہے یا جس کی اس میں  نفی کی گئی(یعنی انکار کیا گیا) ہے اُس کو ثابِت کرے یا جس کو اس میں   ثابِت کیا گیا ہے ، اُس کی نفی (یعنی انکار) کرے حالانکہ وہ انکار کرنے والا اس کو جانتا ہے یا اس میں  کچھ شک کرتا ہے تو وہ بالاجماع علمائے کرام کے نزدیککافر ہے ۔

آیتِ قراٰنی ’’  نہ ماننے  ‘‘  کا حکم

سُوال :  قراٰنِ پاک کی کسی آیتِ مبارَکہ کونہ ماننے والے کیلئے کیا حکم ہے ؟

جواب :   اِس طرح کے ایک سُوال کے جواب میں   میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : آیت کو نہ ماننا یعنی انکار کرنا کُفرہے ، اس کے پیچھے نَما ز کیسی !  مگر عوام ’’  نہ ماننا ‘‘  اسے بھی کہتے ہیں   کہ گناہ خِلاف آیتِ قراٰنی واقِع ہوا اور اُسے آیت سُنائی گئی اور وہ اپنے گُناہ سے باز نہ آیا، یہ باز نہ آنا اگر مَحض شامتِ نَفس سے ہو، (کہ)آیت پر (تو) ایمان رکھتا ہے ۔  نہ اس سے انکار کرتا ہے نہ اس کا مُقابَلہ کرتا ہے تو (اگر چہ) گناہ ہے (مگر)کُفر نہیں    ۔ پھر اگر وہ گناہ خود کبیرہ ہو یا بوجِہ عادت کبیرہ ہو جائے اور یہ شخص اعلان کے ساتھ اس کا مُرتکب ہو تو فاسِقِ مُعلِن ہے ، اس کے پیچھے نَماز مکروہِ تحریمی یعنی پڑھنی گناہ اور پڑھی ہو تو پھیرنی واجِب ۔ وَاللّٰہُ تَعالٰی اَعْلَمُ ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص ۳۱۸)

کیا اِنجیل پر بھی ایمان لانا ہو گا ؟

سُوال :  کیا اِنجیل پر بھی ایمان لانا ضروری ہے ؟

جواب : جی ہاں  ۔ بلکہ ہر آسمانی کتاب پر ایمان لانا ضروری ہے ۔  چنانچِہ  فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامفرماتے ہیں   : جو شخص کسی آسمانی کتاب کا انکار کرے وہ کافر ہے ۔ (منح الروض ص۴۵۶)

کیا ردّوبدل والی اِنجیل پر بھی  ایمان لانا  ضَروری ہے ؟

سُوال :  سنا ہے اِنجیل وغیرہ میں   لوگوں   نے کافی ردّوبدل کر ڈالا ہے کیا پھر بھی اس پر ایمان لاناہو گا ؟

جواب : صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ  علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  آسمانی کتابوں   کے بارے میں   اسلامی عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت  حصہ اوّلصَفْحَہ 29پر فرماتے ہیں    : سب آسمانی کتابیں   اور صحیفے حق ہیں   اور سب کلامُ اللہ  ہیں  ، اُن میں   جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان ضَروری ہے ، مگر یہ بات البتّہ ہوئی کہ اگلی کتابوں   کی حِفاظت اللہ  تعالیٰ نے اُمّت کے سپرد کی تھی، اُن سے اُس کا حِفظ(تحفُّظ) نہ ہوسکا، کلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا اُن کے ہاتھوں   میں   وَیسا ہی باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں   نے تو یہ کیا کہ اُن میں   تحریفیں   کر دیں  ، یعنی اپنی خواہش کے مطابِق گھٹا بڑھا دیا ۔  لہٰذا جب کوئی بات اُن کتابوں   کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ہماری کِتاب (قراٰن مجید)کے مطابِق ہے ، ہم اُس کی تَصدیق کریں   گے اور اگر مخالِف ہے تو یقین جانیں   گے کہ یہ اُن کی تَحرِیفات (تبدیلیوں  )سے ہے اور اگرمُوافَقَت مخالَفَت کچھ معلوم نہیں   تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں   نہ تکذیب(نہ درست مانیں   نہ جُھٹلائیں  )، بلکہ یوں   کہیں   کہ :  اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ۔  ’’ اللہ (عَزَّوَجَلَّ )اور اُس کے فرشتوں   اور اُس کی کتابوں   اور اُس کے رسولوں   پر ہمارا ایمان ہے ۔  ‘‘

میمن قوم کو مذاقاً قراٰن سے ثابت کرنا

سُوال :  کچھ میمن و غیر میمن لوگ مل کر بیٹھے تھے  ۔ اس میں   میمن برادری کے بارے میں   بات چِھڑی، اِس پر ایک شخص نے مذاقاً کہا :  میمن بھائیوں   کی تو بَہُت بڑی شان ہے دیکھو ان کا ذکر قراٰنِ مجید میں   بھی موجود ہے  ! یہ کہہ کر   اُس نے لہجے کے ساتھ پارہ30 سُورۃُ الْبَلَد کی 18ویں   آیت ِ کریمہ ا اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِؕ(۱۸)تلاوت کی ۔ یہ سُن کر حاضِرین میں   ہنسی کافَوّارہ اُبل پڑا ۔  ان سب کیلئے کیا حکمِ شرعی ہے ؟

جواب : آیتِ قراٰنی کا مذاق اُڑانا کُفر ہے اور جو جان بوجھ کر بخوشی مُتَّفِقہو کر ہنسا اس پر بھی حکمِ کُفرہے ۔ ہاں   جو بے اختیار ہنس پڑا یا جس کو سمجھ نہ پڑی اور دوسروں   کو دیکھ کر ہنس دیا اُس پر حکمِ کفر نہیں  ۔

قِراء ت کے انکار کا کیا حکم ہے ؟

 سُوال :  قِراء ت کی کتنی قِسمیں   ہیں  ؟ اگر کسی نے کسی قِراء ت کا انکار کیا تو ؟

 

Index