’’ بہارِ شریعت ‘‘ جلد اوّل صَفْحَہ 172 تا176پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’ (ایمان یہ ہے کہ)سچّے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضَرور یاتِ دین سے ہیں ۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : مسلمان ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زبان سے کسی ایسی چیز کا انکار نہ کرے جو ضروریاتِ دین سے ہے ، اگرچہ باقی باتوں کا اقرار کرتا ہو، اگرچہ وہ یہ کہے کہ صرف زبان سے انکار ہے دل میں انکار نہیں ، کہبِلااکراہِ شرعی ([1]) مسلمان کلمۂ کفر صادر نہیں کرسکتا، وہی شخص ایسی بات منہ پر لائے گا جس کے دل میں اتنی ہی وَقعت ہے کہ جب چاہا انکار کر دیا اور ایمان تو ایسی تصدیق ہے جس کے خلاف کی اصلاً گنجائش نہیں ۔ مزید فرماتے ہیں : بعض اعمال جو قطعاً مُنافیٔ ایمان ہوں اُن کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا، جیسے بُت یا چاند سورج کو سجدہ کرنا اور قتلِ نبی یا نبی کی توہین یامُصحَف شریف یا کعبۂ معظمہ کی توہین اور کسی سنّت کو ہلکا بتانا، یہ باتیں یقینا کُفر ہیں ۔ یوہیں بعض اعمال کفر کی علامت ہیں ، جیسے زُنّار باندھنا، سر پر چُوٹیا رکھنا، قَشْقَہْ لگانا، ایسے افعال کے مرتکب کو فقہائے کرام کافر کہتے ہیں ۔ تو جب ان اعمال سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے مرتکب کو از سرِ نو اسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا( بہارِ شریعت ج۱حصّہ۱ ص۱۷۲ ۔ ۱۷۶) اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : جو خوشی خوشی ضروریات دین میں سے کسی چیز کو جھٹلائے وہ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بھی کافر ہے ۔ اگرچہ یہ دعوی کرتا ہوکہ اس کادل ایمان پر مطمئن ہے ۔ ( المعتمد المستند، حاشیہ نمبر۳۲۰، ص۱۹۴ ) مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایمان کا دعوٰی کرے مگر ضَروریاتِ دین میں سے کسی ضَرورتِ دینیکا انکارکرے ایسا شخص ہرگز ایمان کے دعوے میں سچا نہیں ہو سکتا ، یہ تواُس شخص کی مانند ہے جو کہے : ’’ اِس وَقت دن بھی ہے اوررات بھی ۔ ‘‘ حالانکہ نادان سے نادان انسان بھی جانتا ہے کہ دن کے وَقت رات اور رات کے وَقت دن کا ہونا نہیں پایا جاسکتا، دن اور رات آپَس میں ضِد ہیں اور اجتماعِ ضِدَّین مُحال(یعنی دو اُلٹ چیزوں کاجمع ہونا ناممکن) ہوتا ہے مَثَلاً آگ اور پانی یکجا ہوہی نہیں سکتے ! پس اسی طرح ایمان نور(یعنی روشنی )ہے اور کفر اندھیرالہٰذاایمان اور کفر بھی آپس میں ضِد ہیں ، اور یہ بھی دن اور رات کی طرح ہرگز جمع نہیں ہو سکتے ۔ اُمید ہے یہ بات سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ اَچّھا خاصا مسلمان نظر آنیوالا کُفر کی کھائی میں کیسے جا پڑتا ہے ! کلمہ گو آدَمی خارِج اَز اسلام کب اور کیوں قرار پاتا ہے نیز یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ایمان و کفر دو الگ الگ چیزیں ہیں اور جو ان دونوں کو ایک سمجھے وہ خود کافِر ہے ۔
ایمان کی حفاظت کی فکر ضروری ہے
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 186صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ بہارِ شریعت ‘‘ حصّہ 9 صَفْحَہ 172 تا173پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : کفرو شرک سے بد تر کوئی گناہ نہیں اور وہ بھی اِرتِداد کہ یہ کُفرِاصلی سے بھی باِعتِبار اَحکام سخت تَر ہے جیسا کہ اس کے اَحکام(جاننے ) سے معلوم ہو گا ۔ مسلمان کو چاہئے کہ اِس(کفر و اِرتِداد) سے پناہ مانگتا رہے کہ شیطان ہر وَقت ایمان کی گھات میں ہے اور حدیث میں فرمایا کہ ’’ شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح تَیرتا ہے ۔ ‘‘ آدَمی کو کبھی اپنے اُوپر یا اپنی طاعت (و عبادت)و اعمال پر بھروسا نہ چاہئے ، ہر وَقت خدا عَزَّوَجَلپر اعتِماد کرے اور اُسی سے بقائے ایمان کی دُعا چاہئے کہ اُسی کے ہاتھ میں قَلْب ہے اورقَلْب کو قَلْب اِسی وجہ سے کہتے ہیں کہ لَوٹ پَوٹ( اُلٹ پلٹ) ہوتا رہتا ہے ۔ ایمان پر ثابت رہنا اُسی کی توفیق سے ہے جس کے دستِ قدرت میں قَلْب ہے اور حدیث میں فرمایا کہ شرک سے بچو کہ وہ چِیونُٹی کی چال سے زیادہ مَخفی( یعنی پوشیدہ) ہے اوراس سے بچنے کی حدیثِ(پاک) میں ایک دُعا ارشاد فرمائی اسے ہر روز تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے کہ شرک سے محفوظ رہو گے وہ دعا یہ ہے : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّ اَنَا اَعْلَمُ وَاَسْتَغْفِرُ کَ لِمَا لَا اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الغُیُوْبِ ۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص۱۷۲ ۔ ۱۷۳)
ایمان کی حفاظت کی دُعا کیلئے دربارِ اعلٰی حضرت میں حاضِری
ایمان کی حفاظت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں سے ایمان کی حفاظت کی دُعا کی درخواست کرتا رہے کہ نہ جانے کس کی دُعا کی بَرَکت سے ایمان سلامت لیکر دُنیا سے رُخصت ہونا نصیب ہو ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰنچُونکہ بَہُت بڑے ولیُّ اللہ اورایک زبردست عاشقِ رسول تھے ، لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمتِ با بَرَکت میں اہلِ عقیدت دُور دُور سے حاضِر ہوتے تھے چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطبوعہ561 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ صَفْحَہ311پر شہزادۂ اعلیٰ حضرت ، تاجدارِ اہلسنّت ، حُضُور مفتیٔ اعظم ہند مولیٰنا مصطَفٰے رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ایک روز بعد فراغ نماز عشاء لوگ دست بوس ہورہے تھے اِس مجمع میں سے ایک صاحِب نے (حُضُور اعلیٰ حضرت کی ) خدمت با بَرَکت میں عرض کی : حُضُور ! میں ’’ ضِلع ہوشنگ آباد ‘‘ کارہنے والا ہوں ، مجھے حُضُور کی ’’ جبل پور ‘‘ تشریف آوَری کی رَیل (ٹرین) میں خبر ملی لہٰذا ڈاک سے صِرف دُعا کے واسِطے حاضِر ہوا ہوں کہ خُداوندِ کریم( عَزَّوَجَلَّ )ایمان کے ساتھ خاتِمہ بِالخیر کرے ۔ حُضُور نے دُعا دی اور ارشاد فرمایا : اکتالیس بار صبح([2]) کویَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اوَّل و آخِر دُرُود شریف، نیز سوتے وَقت اپنے سب اَوراد کے بعد سورۂ کافِرون روزانہ پڑھ لیا کیجئے اس کے بعد کلام (گفتگو)وغیرہ نہ کیجئے ہاں اگر ضَرورت ہو تو کلام (بات)کرنے کے بعد پھر سورۂ کافِرون تلاوت کر لیں کہ خاتِمہ(اختِتام ) اسی پر ہو ، اِنْ شَائَ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ خاتِمہ ایمان پر ہو گا اور تین بار صبح اور تین بار شام اس دُعا کا وِرد رکھیں : اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِكَ مِنْ اَنْ نُشْرِكَ بِكَ شَيْاءً نَعْلَمُہ وَنَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا نَعْلَمُہ ۔
[1] یعنی جان سے مار دینے یا جسم کا کوئی عُضو تَلَف (ضائع)کر دینے یا ضربِ شدید (سخت مار لگانے ) کی صحیح دھمکی دینا جس کو دھمکی دی گئی وہ جانتاہے کہ ظالم جو کچھ کہہ رہا ہے وہ کر گزرے گا یہ اِکراہِ شرعی کہلاتا ہے ۔
[2] آدھی رات ڈھلے سے سورج کی پہلی کرن چمکنے تک صُبح کہلاتی ہے اور دوپہر ڈھلنے سے غروبِ آفتاب تک شام کہلاتی ہے ۔