کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

{34}جو شخص بِغیر تاویل کے کہے :   ’’ یہ عبادتیں   اللہ  عَزَّوَجَلَّ  نے ہمارے لئے عذاب بنا دی ہیں    ‘‘ وہ کافر ہے ۔       

{35}جو شخص بِغیر تاویل کے کہے :  ’’  اگر اللہ  تعالیٰ فُلاں   چیز ہمارے اوپر فرض نہ کرتا  تو اچّھا ہوتا ‘‘  یہ قول کفر ہے ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص ۵۰۵ )

{36}جس نے کہا  :  ’’ میں  اِن شاء اللّٰہ(یعنی اللہ نے چاہا تو) مؤمِن ہوں   ‘‘  اگر اپنے ایمان میں   تَرَدُّد (یعنی شک )کی وجہ سے کہا تُو کفر ہے ۔ اور اگر اِس وجہ سے کہا کہ معلوم نہیں   خاتِمہ ایمان پر ہوگا یا کفر پر، تو کفر نہیں  ۔        ( عالمگیری ج۲ ص ۲۵۷، مِنَحُ الرَّوض ص۴۷۶)

{37}جو اسلام و ایمان پر راضی نہ ہو وہ کافِرہے ۔ (عالمگیری ج۲ ص۲۵۷)

{38}جو غیر خدا کو  ’’ اے معبود !   ‘‘  یا  ’’ اے میرے معبود !  ‘‘  کہے وہ کافر ہے ۔     ( مِنَحُ الرَّوض ص۵۱۵)

{39} ’’ اپنے پِیروں   کو خدا اور رسول  ‘‘ کہنے والا کافرہے ۔  (فتاوٰی رضویہ  ج۱۴ ص۶۱۰)

{40}کفر کو معمولی بات سمجھتے ہوئے بک دینا بھی کفر ہے اگر چِہ جو کچھ بکا اُس پر اعتِقاد نہ رکھتا ہو ۔ (  عا لمگیری ج۲ ص ۲۷۶) یعنی ایسا بے باک ہو کہ کفر بکنے کو بڑی بات نہ سمجھتا ہو، مُنہ پَھٹ ہوکُفر بک دے ۔

{41} بُتوں   یا شیطان کے نام پر (غلام)آزاد کیا کہ غلام اب بھی آزاد ہوجائے گا مگر اس کا یہ فعل کفر ہوا کہ ان کے نام پر آزاد کرنا دلیلِ تعظیم ہے اور ان کی تعظیم کفر ۔  (  بہارِ شریعتحصّہ۹  ص۳)

{42} جس سے کہا گیا :  ’’  کیا تُو اللّٰہ سے نہیں   ڈرتا ؟ ‘‘  اُس نے کہا :  ’’  نہیں   ۔  ‘‘   یہاں   جواباً  ’’  نہیں    ‘‘   کہنا کفر ہے ۔ (مَجْمَعُ الْاَنْہُر  ج ۲ ص ۵۰۵ )   ’’  عالمگیری  ‘‘ میں   ہے :  جب میاں   بیوی کے درمیان آپس میں   جھگڑا طویل ہو ا، تو شوہر نے بیوی سے کہا : خدا سے ڈر، اور اپنے آپ کو اس کی نافرمانی سے بچا، پس بیوی نے جواب دیا : میں   ا س سے نہیں   ڈرتی، (  تو اس کے بارے میں  ) حضرت سیِّدناشیخ ابوبکر محمد بن الفضل رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا  : اگر شوہرنے اس کو ظاہری گناہ پر ملامت کی اور اسے اللہ تعالیٰ سے خوف دلایا اور اس نے یہ جواب دیا تو مرتدہ ہوجائے گی اور اپنے شوہر سے  ’’  بائنہ  ‘‘ ہوجائے گی، اور شوہر نے اس کو ایسے امر پر ملامت کی جس میں   خدا کی طرف سے خوف کا مقام نہیں   ، تو کافرہ نہ ہوگی، لیکن اگر اس نے اپنے اس کلام سے استخفاف کا ارادہ کیا ہے تو اپنے شوہر سے بائنہ ہوجائے گی ۔   ( عٰالمگیری ج۲ ص۲۶۱)میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اس مسئلے کے تحت فرماتے ہیں  : میں   کہتا ہوں   (بیوی کے اس قول) ’’  میں   اس سے نہیں   ڈرتی ‘‘  کے دو معنی ہیں   : پہلا معنی کہ غرور وتکبُّر کی وجہ سے (خدا کے ) خوف سے انکار کرنا کفر ہے  ۔ دوسرا معنیٰ جس طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حق ہے اس طرح ڈرنے کی اپنے آپ سے نفی (انکار) کرنا اور یہ حق وثابت ہے ۔   ’’ عالمگیری ‘‘  میں   ہے :  ایک شخص نے دوسرے کو مارنا چاہا تو وہ بولا  : کیا تو اللہ تعالیٰ سے نہیں   ڈرتا ؟ تو اس نے کہا :  ’’ نہیں    ۔  ‘‘  حضرت سیِّدنا امام محمد رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے جواب ارشاد فرمایا :  اس کی تکفیر نہیں   کی جائے گی، اس لیے کہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ تقویٰ اسی میں   ہے ، جو میں   کرتا ہوں  ، اور اگر کوئی شخص گناہ کرتا ہوا دیکھا گیا، پس کسی دوسرے نے اس سے کہا  : کیا تو اللہ تعالیٰ سے نہیں   ڈرتا ؟ تو اس نے کہا  :  ’’ نہیں    ۔  ‘‘  تو کافر ہوجائے گا، اس لیے کہ اس کی تاویل ممکن نہیں   ہے ۔         )عالمگیری ج۲ ص۲۶۱)میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اس مسئلے کے تحت فرماتے ہیں  : اور اس چیز کو یاد رکھو جو ہم نے ابھی ذکر کی ہے ۔ ۔ ۔  اِلخ  ۔ (مترجم حاشیہ عالمگیری باب احکام المرتدین ص ۳۱، ۳۲)

{43}نشہ کی حالت میں   اگر کوئی کلمۂ کفر بکا تواُسے مُرتد کا حکم نہ دیں   گے یعنی اُس کی عورت بائِن نہ ہوگی رہا یہ کہ عندَ اللہ  بھی کافِر ہوگا یا نہیں  ؟ اگر قصداً کفر بکا ہے توعِندَاللہ  کافِر ہے ورنہ نہیں  ۔ (  بہارِ شریعتحصّہ۹ ص۱۱۰ )

{44}نشہ والا جس کی عقل جاتی رہی اور زَبان سے کلمۂ کفر نکلا تو عورت نکاح سے باہَر نہ ہوئی ۔  ( عالمگیری ج ۱ص ۳۴۰) مگر تجدیدِ نکاح کیا جائے ۔ (  بہارِ شریعتحصّہ ۷ ص۹۳)

 {45}  ’’ عالمگیری ‘‘  میں   ہے : اگر کسی مسلمان نے کہا میں   مُلْحِد ہوں  ، تو اس کی تکفیر کی جائے گی، اور اگر اس نے عذر کیا کہ میں   نہیں   جانتا تھا کہ یہ کفر ہے تو اس کا یہ عذر قبول نہیں   کیا جائے گا ۔ (ٰ عالمگیری ج۲ ص۲۷۹)امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اس مسئلے کے تحت فرماتے ہیں   : میں   کہتا ہوں   لیکن ’’  غَمْزُ الْعُیُون  ‘‘ وغیرہ میں   صراحت کی کہ فتوی اس پر ہے کہ مکفرات(کفریات بکنے والے ) میں   جَہل (معلوم نہ ہونا)عُذر ہے ہاں   مگر یہ کہا جائے یہ مذکورہ مسئلہ ان مسائل میں   ہے جس سے غافل نہیں   ہونا چاہئے اور نہ ہی اس میں   عذر (جہل) قبول کیا جائے گا پس غور کرنا چاہئے ۔  (مترجم حاشیہ عالمگیری باب احکام الم

Index