ربُّ العباد ہے :
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۷۲)لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳) ( پ۶المائدہ، ۷۲، ۷۳)
ترجَمۂ کنز الایمان : بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ اللّٰہ وُہی مسیح مریم کا بیٹا ہے اور مسیح نے تو یہ کہا تھا : اے بنی اسرائیل ! اللّٰہ کی بندگی کرو جو میرا رب اور تمہارا رب، بیشک جواللّٰہ کا شریک ٹھہرائے تواللّٰہ نے اس پر جنّت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ۔ بے شک کافِر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللّٰہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے ، اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا اور اگر اپنی بات سے باز نہ آئے تو جو ان میں کافر مریں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہونچے گا ۔
کیا توحید کے قائل یہودیوں کو بھی اہلِ ایمان نہ کہا جائے ؟
سُوال : جو یہودی توحید کے قائِل ہیں کیا ان کو بھی اہلِ ایمان نہیں کہہ سکتے ؟
جواب : یہودیوں میں سے جولوگ ربُّ العزّت کی وحدانیت کے قائل ہیں اُن کو بھی اہلِ ایمان نہیں کہہ سکتے کیو ں کہ اہلِ ایمان کے لئے توحید پر ایمان کے ساتھ ساتھ نبیِّ آخِر الزّمان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پر ایمان لانا بھی ضَروری ہے اور اگر کوئی اللّٰہُ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لائے مگر سلطانِ دوجہان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے تو وہ ایمان والا یعنی مومن نہیں جیسا کہ یہود و نصارٰی رَسُوْلُ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے تو انہیں قراٰن پاک میں مُنکِر و لعنتی قرار دیا گیا ۔ چُنانچِہ مقدّس قراٰن پارہ 1سُورۃُ الْبَقَرہ کی آیت نمبر89 میں خدائے حنّان و منّان عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ فیصلہ نشان ہے :
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْۙ-وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْاۚ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ٘-فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(۸۹)
ترجَمۂ کنز الایمان : ا ور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کیساتھ والی کتاب (توریت)کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت مُنکِروں پر ۔
پارہ 3 سورۂ ال عمرانآیت 90 میں خدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عظیمُ الشّان ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ(۹۰)
ترجَمۂ کنز الایمان : بے شک وہ جو ایمان لا کر کافر ہوئے پھر اور کفر میں بڑھے ان کی توبہ ہر گز قبول نہ ہو گی اوروہی ہیں بہکے ہوئے ۔
صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْہَادِی اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر خزائنُ العرفان میں فرماتے ہیں : ’’ یہ آیت یہود و نصارٰی کے حق میں نازِل ہوئی جو سیِّدِ عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت سے قبل تو اپنی کتابوں میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صِفَت دیکھ کر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھتے تھے اورآ پ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظَہور کے بعد کافِر ہوگئے اور پھر کفر میں اور شدید ہو گئے ۔ ‘‘
کیا کتابیوں کو اہلِ ایمان کہنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ؟
سُوال : تو کیا واقِعی اہلِ کتاب کو اہلِ ایمان کہنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ؟
جواب : جی ہاں کوئی گنجائش نہیں کہ جب قراٰنِ پاک نے یہود ونصارٰی کو صَراحَۃًکافرفرما دیا تو اب ان کو اہلِ ایمان کہنے کی گنجائش ہی کب رہی ! بلکہ اہلِ کتاب کا اپنی کتابوں پر عمل کرنے کا دعویٰ بھی انہیں اہلِ ایمان نہ کر سکے گا کہ جب اُن کی کتابوں میں سرکا رِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اور ان پر ایمان لانے کا ذِکر کیا گیا تھا تو پھر بعد میں خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکار کرنا گویا کہ اپنی کتابو ں کو نہ ماننا ہے ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا امام فخرالدّین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’ تفسیرِکبیر ‘‘ میں سورۃُ الْبَقَرۃ کی آیت نمبر41 کے اس حصّے : وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ۪-ٖ(ترجَمۂ کنزالایمان : اور سب سے پہلے اس کے منکِر نہ بنو )کے تَحت فرماتے ہیں : تاجدارِ نُبُوَّت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کو سب سے پہلے جھٹلا کر اپنی کتابوں کوجُھٹلانے والے نہ بنو اس لئے کہ تمہارا رَسُوْلُ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جُھٹلانا اپنی کتابوں کے جُھٹلانے کو لازِم کرتا ہے ۔ (تفسیرکبیر، ج ۱ص ۴۸۳ )
کیا شرک سے بچنے والے کتابی کو بھی اہلِ ایمان نہیں کہہ سکتے ؟
سُوال : کوئی یہودی یا کرسچین اگر شرک نہ کرتا ہو اورصرف ایک خدا کا قائل ہو کیا اب بھی ا س کواہلِ ایماننہیں کہہ سکتے ؟
جواب :