کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

جواب : کسی  ’’  بال ‘‘  کوسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا مُوئے مبارَک   تسلیم کرنے کے باوُجوداگر اُس کی توہین کرے تو کافِر ہے ۔  مُوئے مبارَک کو ایذا دینے والا اللہ و رسولعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتا ہے ۔ شَہَنْشاہِ خوش خِصال، سلطانِ شِیریں   مَقال ، صاحبِ جُودونَوال، محبوبِ ربِّ ذُوالجلال  عَزَّوَجَلَّ  و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا ارشاد ِ باکمال ہے :   ’’ جس نے میرے مبارَک بال  کو ایذا دی، اُس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے اِیذا دی، بیشک اُس نے اللہ  تعالیٰ کو ایذا دی ۔  ‘‘  (تاریخ دمشق لابن عساکِر ج ۵۴ ص۳۰۸)

وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا

لُکّۂاَبر ِرافت[1]؎ پہ لاکھوں   سلام

محبوب سے نسبت رکھنے والی چیز کی گستاخی کُفر ہے

          یاد رکھئے ! نبیِّ پاک، صاحِبِ لَولاک، سَیّاحِ اَفلاکصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے نسبت رکھنے والی کسی بھی چیز کی گستاخی کرنا کُفر ہے ۔  صدرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   :  ’’ جو شخص حُضُورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تمام انبیا میں   آخِری نبی نہ جانے یاحُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی کسی چیز کی توہین کرے یا عیب لگائے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُوئے مبارَک کو تحقیر (یعنی حَقارت)سے یاد کر ے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لباسِ مبارَک کوگندہ اور مَیلا بتائے ، حُضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ناخن بڑے بڑے کہے یہ سب کفر ہے ۔  بلکہ اگر یوہیں   کسی نے یہ کہا :  حُضور ِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھانا تناوُل فرمانے کے بعد تین بار اَنگُشت ہائے مبارک(یعنی مبارک اُنگلیاں  ) چاٹ لیا کرتے تھے  ۔ اِس پر کسی نے کہا :  یہ ادب کے خلاف ہے یا کسی سنّت کی تَحقیر(یعنی توہین) کرے مَثَلاً داڑھی بڑھانا، مُونچھیں   کم کرنا ، عمامہ باندھنا یا شملہ لٹکا نا، ان کی اِہانت (یعنی گستاخی) کُفر ہے جبکہ سنّت کی توہین مقصود ہو ۔  (بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص ۱۸۱)

سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ہر عَیب سے پاک ہیں 

            خُدا کی قسم !  حضُورِ اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہر عیب سے پاک ہیں  ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے نسبت رکھنے والی ہر چیز باعظمت ہے ، عُشّاق کو اپنے آقا  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی ہر شے میں   سعادتیں   اور بَرَکتیں   ہی نظر آتی ہیں  ۔ چُنانچِہ عاشِقوں   کے امام میرے آقا اعلیٰ حضرت، ا ِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن حدائق بخشش  شریف میں   فرماتے ہیں      ؎

وہ کمال حُسنِ حُضور ہے کہ گمانِ نَقص جہاں   نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں   نہیں

کدُّ و شریف کی گستاخی کرنا کیسا ؟

سُوال :   کیا کدّو شریف کی توہین کُفر ہے ؟

جواب : کدّو شریف مکّی مدنی آقا  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پسند تھا تو اگر معاذاللّٰہکسی کواِس حیثیت سے ناپسند ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کوپسند تھا تویہ کفر ہے ۔ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے  ہیں  : کسی کے اس کہنے پر کہ حُضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو کدّو پسند تھا کوئی یہ کہے :   ’’ مجھے پسند نہیں   ‘‘  تو بعض عُلَماء کے نزدیک کافر ہے ۔ اورحقیقت یہ ہے کہ اگر اس حیثیت سے اُسے نا پسند ہے کہ حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو پسند تھا تو کافِر ہے ۔   (بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص ۱۸۱)

                                                مجھے کدُّو نا پسند ہے کہنے والے کی حکایت

            اِس ضِمن میں   ایک ایمان افروز حِکایت مُلاحَظہ فرمایئے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُناامام ابو یُوسُف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سامنے اس رِوایت کا جب ذکر آیا کہ حُضُور پُرنور ، شافِعِ یومُ النُّشُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو کدّو پسند تھا ۔  یہ سُن کر ایک شخص نے کہا :  اَنَا مَااُحِبُّ الدُّبَّاء یعنی میں   کدُّو پسند نہیں   کرتا ۔  اس بات کا سُننا تھا کہ حضرتِ سیِّدُنا امام ابو یُوسُف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تلوار کھینچ لی اور اُس شخص سے فرمایا :  تجدیدِاسلام کر ورنہ میں   تجھے ضَرور قتل کردوں   گا ۔  ( شرحُ الشِّفا للقاری ج۲ ص ۵۱