کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

            بِرّوقسط یعنی دُنیوی مُعاملات میں   خوش اُسلُوبی، کُفّار کے اِحسان کا احسان سے بدلہ ، یہ بھی جائز ہے ۔ مَحَبَّت کی تین صورَتیں   ہیں   : (1) کافِر کے کفر سے  مَحَبَّت اور اس(کفر) سے راضی ہونا ، یہ کفر ہے (2) کُفّار سے مَحَبَّت کہ کفر کو توبُر اجانے مگر اہلِ اسلام کے مقابلے میں   کُفّار کی مدد کرے ، خواہ قَرابت داری یا دنیوی لالچ یا کسی اور وجہ سے  ۔ یہ سخت حرام ہے بلکہ اس کا انجام کفر ہے  ۔ (3) تیسرے کافر قرابت دار (یعنی رشتے دار) سے غیر اختیاری طبیعت کا مَیلان ۔ کافر بیٹے سے مَحَبَّتِ پِسری (یعنی بیٹے کی محبت)وغیرہ ۔ مگر اس مَحَبَّت پر اتنی قدرت رکھے کہ جب اسلام و کفر کا مقابلہ  آ پڑے تو بیٹے کا لحاظ نہ کرے ۔ یہ جائز ہے منع نہیں    ۔ (کُفار سے )مُحَبَّت کامَیل جُو ل بَہَر حال  حرام ہے ۔ ان آیات میں   کُفّار کی غیرضَروری مَیل جُول اور دوستی سے منع کیا گیا ہے  ۔

( تفسیرِ نعیمی ج۳ص ۴۲۲ )

کیا کافِر سے ہاتھ ملا سکتے ہیں  ؟

سُوال :  کیاکافِر سے ہاتھ ملا سکتے ہیں  ؟

جواب :  منع ہے ۔ رَسُوْلُ اللہ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے مَنْع فرمایا کہ کسی مُشرِک سے ہاتھ ملائیں   یا اسے کُنْیَت سے ذِکر کریں   یا اُس کے آتے وَقت مرحبا کہیں   ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص  ۱۴۹، حِلیۃُ الاولیاء ج۹ ص۲۴۸ رقم۱۳۷۹۴)

            البتّہ مجبوری میں   جب ان کی طرف سے خطرہ ہو تو بے دلی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی گنجائش ہے جیسا کہمُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان کے  تفسیرِ نعیمی جلد3 صَفْحَہ421پر دیئے ہوئے مضمون کا خلاصہ ہے :   ’’ بوقت ضرورت ان سے ہاتھ ملا سکتے ہیں   مگر خبردار دل میں   ان سے محبت نہ رکھنا ۔  ‘‘     ( تفسیرِ نعیمی)

کافِر کے پاس تعلیم حاصِل کرنا کیسا ؟

سُوال :   کافِر استاد کے پاس تعلیم حاصِل کرنے کی شرعاً اجازت ہے یا نہیں  ؟

جواب :  اجازت نہیں   ہے ۔  چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : غیر مذہب والیوں  ( یا والوں   ) کی صُحبت آگ ہے ، ذی عِلم عاقِل بالِغ مردوں   کے مذہب(بھی) اس میں   بگڑ گئے ہیں  ۔ عمران بن حطان رقاشی کا قصّہ مشہور ہے ، یہ تابِعین کے زمانہ میں   ایک بڑامُحدِّث تھا ، خارِجی مذہب کی عورت کی صُحبت میں   مَعاذَاللّٰہ خود خارِجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُسے سُنّی کرنا چاہتا ہے  ۔ جب صُحبت کی یہ حالت تو اُستاد بنانا کس دَرجہ بدتر ہے کہ اُستاد کا اثر بَہُت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے ، تو غیر مذہب عورت( یا مرد) کی سِپُردگی یا شاگِردی میں   اپنے بچّوں   کو وُہی دے گا جو(خود) آپ(ہی) دین سے واسِطہ نہیں   رکھتا اور اپنے بچّوں   کے بَددین ہو جانے کی پرواہ نہیں   رکھتا ۔  ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص ۶۹۲)

کافر کی دوستی ایمان کے لئے خطرناک ہے

سُوال :  کیا کافِر سے دوستی سے ایمان خطرے میں   پڑ جاتا ہے ؟

جواب : جی ہاں   ۔ کُفّار کی صحبت بخدا بَہُت بڑی آفت ہے اور اِس سے ایمان برباد ہو سکتا ہے اور جو کُفّار کی صحبت یا ان کے جلسوں   میلوں   میں   شرکت کے باعِث ایمان برباد کر بیٹھے گا وہ کس قَدَر بد نصیب ہوگا ۔ کافِر کی دوستی کے سبب ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والا بروزِ قِیامت دستِ حسرت ملتے ہوئے جو کچھ کہے گااُس کا بیان کرتے ہوئے پارہ 19سورۃُ الفُرقان آیت نمبر28  تا 29میں   ارشاد فرمایا جا رہا ہے  :

یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸)لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-  (پ۱۹ الفرقان ۲۸، ۲۹)

ترجَمۂ کنزالایمان : وائے خرابی میری  ! ہائے ! کسی طرح میں   نے فُلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا، بے شک اس نے مجھے بہکا دیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے ۔

          مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں   : شانِ نُزُول :  یہ آیت عُقبہ بِن مُعِیط کیمُتَعَلِّق نازل ہوئی جس نے اوَّلاً کلمہ پڑھ لیا تھا پھر اُبَی بِن خَلف کے کہنے سے مُرتَد ہوگیا ۔ (اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عطا کردہ علمِ غیب کے سبب) حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اُس ( عُقبہ بن مُعیط)کے قتل کی خبر دی ۔

چُنانچِہ وہ بَدر میں   مارا گیا ۔ اُبیِّ بن خَلف اس کا دوست تھا ۔ اُسے (یعنی عُقبہ بن مُعیط کو ) قِیامت میں   اس(یعنی اُبی بن خلف) کی دوستی پر نَدامت ہو گی ۔ آیت کا شانِ نُزُول اگر چِہ خاص ہے مگر اس کا حکم عام ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے لئے دو چیزیں   ضَروری ہیں  ۔ اچّھوں   سے اُلفت ، بُروں   سے نفرت ۔ اس لئے کُفّا ر ان دونوں  (باتوں   سے محرومی) پر کفِ افسوس ملیں   گے ۔ کُفّار سے دینی مَحَبَّت رکھنی کُفر ہے اور دنیاوی مَحَبَّت ضُعفِ ایمان(یعنی ایمان کی کمزوری)  ۔             (نورُالعرفان ص ۵۷۷، ۵۷۸ )

سُوال : کُفار کی جے پکارنا کیسا ہے ؟

جواب :  کُفر ہے  ۔ میرے آقااعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں   :     کافِروں   کی جے بولنا کُفر ہے ۔      (فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ص ۶۷۴)

کافر کی تعظیم کرناکیسا ؟

سُوال : کافِر کی تعظیم کرنے کی اجازت ہے یا نہیں  ؟

جواب : اجازت نہیں   ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت مولیٰنا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن  فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام

 

Index