اور یہ بھی صَریح کُفْریات ہیں ۔
ابھی توبہ کر لینے اور زَبان کو قابو میں رکھنے میں عافیَّت ہے ، ورنہ جو لوگ کُفر کی موت مر کرہمیشہ ہمیشہ کیلئے واصِلِ جہنَّم ہوجائیں گے وہ بَہُت ہی پچھتائیں گے ۔ ان جہنَّمیوں کا اوراہلِ جنّت کا مُکالمہ (مُکا ۔ لَ ۔ مَہ ) مُلاحَظہ فرمایئے جو کہ نہایت ہی قابلِ عبرت ہے ۔ چُنانچِہ اس کو پارہ 29 سورۃُ المُدَّثِّرکی آیت نمبر40 تا 47 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :
فِیْ جَنّٰتٍﰈ یَتَسَآءَلُوْنَۙ(۴۰)عَنِ الْمُجْرِمِیْنَۙ(۴۱)مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(۴۳)وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ(۴۴)وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىٕضِیْنَۙ(۴۵)وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِۙ(۴۶)حَتّٰۤى اَتٰىنَا الْیَقِیْنُؕ(۴۷)
تَرجَمَۂ کنزالایمان : باغوں میں پوچھتے ہیں ، مجرموں سے ، تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی ؟ وہ بولے : ہم نماز نہ پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے اور بَیہودہ فکر والوں کے ساتھ بَیہودہ فکریں کرتے تھے اور ہم انصاف کے دن کو جُھٹلاتے رہے یہاں تک کہ ہمیں موت آئی ۔
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا جسم ماننا کیسا ؟
سُوال : اللہ عَزَّوَجَلَّکو انسان کی طرح بدن والا ماننا کیسا ہے ؟
جواب : ایسا کہنے یا ماننے والا کافر ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ، جلد14، صَفْحَہ 250 پر ’’ دُرِّمُختار ‘‘ کے حوالے سے نَقل کرتے ہیں : ’’ اگر ضَروریاتِ دین سے کسی چیز کامنکِرہو تو کافر ہے جیسے یہ کہناکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اَجسام کے مانند جسم ہے ۔ ‘‘
(دُرِّمُختار ج۲ ص ۳۵۸)
’’ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ مکان سے پاک ہے ‘‘ کے بارے میں سُوال جواب
’’ روزی دینے والا اوپر بیٹھا ہے ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : ’’ روزی دینے والا یا انصاف کرنے والا اوپر بیٹھا ہے ۔ ‘‘ کہنا کیسا ؟
جواب : یہکلِمۂ کُفْر ہے کیوں کہ اس میں اللّٰہُ الرَّحمٰنعَزَّوَجَلَّکے لئے سَمْتو مکان ثابِت کئے گئے ہیں ۔ صَدْرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّریقہ حضرت علّامہ مَوْلانامُفتی محمد امجَد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مکان ثابِت کرنا کُفْر ہے کہ وہ مکان سے پاک ہے ، یہ کہناکہ ’’ اوپر خُدا ہے نیچے تم ‘‘ یہ کَلِمَۂ کُفْر ہے ۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص ۱۸۰، فتاوٰی قاضی خان ج۴ص۴۷۰)
بچّوں کو اللہ کہنا سکھایئے
سُوال : اپنے بچوں کو بعض لوگ یِہی ذِہن دیتے ہیں کہ اللّٰہ اوپر ہے ۔ لہٰذا ان بچّوں کو جب پیار سے پوچھا جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کہاں ہے ؟ تو فوراً آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا دیتے ہیں ۔ ایسا سکھانا کیسا ؟
جواب : اس طرح وُہی سکھاتا ہو گا جس کا اپنا ذِہن بھی یِہی ہوتا ہو گا کہ مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ’’ اللّٰہ تعالیٰ اوپر ہے یا اوپر اُس کا مکان ہے جس میں وہ رہتا ہے ‘‘ یہ دونوں باتیں کفر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جِہَت (یعنی سمت) سے بھی پاک ہے اور مکان سے بھی ۔ بچّہ کو اشارہ مت سکھایئے بلکہ جُوں ہی بولنے کے لائق ہو سب سے پہلے اُس کی زَبان سے لَفظ ’’ اللہ ‘‘ نِکلوانے کی کوشِش فرمائیے ۔ اِس کے بعدلَآ اِلٰہَ اِلَّاا للّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہنا سکھائیے ۔ نیز اُس کو یہ کہنا بھی سکھایئے : اللہ ہماری جان سے بھی قریب ہے ۔ پارہ 26سورۂ ق آیت نمبر16میں اللہ عَزَّوَجَلَّارشاد فرماتا ہے :
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(۱۶) ( پ۲۶ ق۱۶)
ترجمۂ کنزالایمان : اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں ۔
صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْہَادِی فرماتے ہیں : یہ کمالِ علم کا بیان ہے کہ ہم بندے کے حال کو خود اس سے زیادہ جاننے والے ہیں ، ’’ وَرِید ‘‘ وہ رَگ ہے جس میں خون جاری ہو کر بدن کے ہر ہرجُزو(یعنی حصّے ) میں پہنچتا ہے ، یہ رگ گردن میں ہے ۔ معنیٰ یہ ہیں کہ انسان کے اَجزاء ایک دوسرے سے پردے میں ہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی چیز پردے میں نہیں ۔ (خَزَائِنُ الْعِرْفَان ص ۸۲۶)
’’ اللّٰہ ‘‘ کا اشارہ گونگے بہرے کس طرح کریں ؟
سُوال : آج کل گونگے بَہروں کو تربیّت دینے والے ’’ اللہ ‘‘ کا اشارہ آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھوا کر سکھاتے ہیں یہ کہاں تک دُرُست ہے ؟
جواب : یہ طریقہ قَطعاً (قَطْ ۔ عاً)غَلَط ہے ۔ ان بے چاروں کے ذِہن میں یِہی نظریات بیٹھ جاتے ہوں گے کہ ’’ ا للّٰہ تعالیٰ اوپر ہے یا اوپر اُس کا مکان ہے جس میں وہ رہتا ہے ‘‘ یہ دونوں باتیں کفر ہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ جِہَت (یعنی سَمت) سے بھی پاک ہے اور مکان سے بھی ۔ آسمان کی طرف اشارہ کرنے کے بجائے ان کو ہاتھ کے ذَرِیعے لفظ ’’ اللّٰہ