اوراِسْتِفہام(یعنی پوچھنا) یہاں مقصود بھی نہیں ۔ چُنانچِہ اِس کی نَظیرفُقَہاء ِکرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ السَّلام نے اس طرح ذکْر فرما ئی : اگر ایک شخْص نے اللہ تعالیٰ کا بار بار ذکْرکیا تو دوسرے نے اُس سے کہا : ’’ کیا وہ ( یعنی اللہ عَزَّوَجَلّ) تمہار اچچا زاد بھائی ہے ؟ ‘‘ یہ کہنا کفر ہے کیونکہ اس نے اللّٰہُ ربُّ العٰلَمِین عَزَّوَجَلَّ کی توہین کی اور یونہی قُراٰن اور مسجِد اور دیگر مُعَظَّمِینکی توہین کُفْر ہے ۔ (غمزعیون البصائرج ۱ ص۱۰۸ )
سُوال : ابھی آپ نے بتایا کہ دیگر مُعَظَّمِین کی توہین کفر ہے ۔
مُعَظَّمِینکے معنیٰ اور ان کی نشاندہی بھی کر دیجئے تا کہ بچنا آسان ہو ۔
جواب : مُعَظَّمِین جمع ہے ‘‘ مُعَظَّم ‘‘ کی اور یہاں مُعَظَّم سے مُراد ہر وہ شے اور مقام وغیرہ ہے جس کی شرعاً عظمت مُسلَّم ہو ۔ مَثَلاً نبی، فِرِشتہ ، کعبۂ مُشَرَّفہ ، قراٰنِ کریم، حدیثِ پاک ، شَریعت وغیرہ چُنانچِہ ان میں سے کسی کی بھی توہین کرناکفر ہے ۔
’’ ہمارا سارا گاؤں گستاخ ہے ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ میرے علاوہ ہمارا پورا گھر یاسارا خاندان یا ہمارے گاؤں والے سب کے سب گستاخانِ رسول ہیں ۔ ایسا کہنا کیسا ہے ؟
جواب : اگر واقِعی گھر یا خاندان یا گاؤں کے سارے مرد وعورت ایسے ہی ہیں تو کہنے میں حَرَج نہیں ، لیکن عُموماً ایسا نہیں ہوتا ۔ خاندان اور گاؤں کے اکثر مرد و عورت مسلمان ہی ہوتے ہیں
سارے شہروالوں کوزانی کہنے کا شَرعی حکم
سارے گاؤں یا خاندان بھر کو گستاخِ رسول کہدینا تو یقینا بَہُت
بھاری بات ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کا ایک مقّرر کے بارے میں فتویٰ مُلاحَظہ فرمایئے : جس نے جلسہ میں بمبئی کے سارے مسلمانوں کی طرف بُرائی منسوب کرنے کی ناپاک سعی کی تھی ۔ چُنانچِہ فرماتے ہیں : اُس کا کہنا کہ ’’ بمبئی میں کوئی مکان یا گلی کُوچہ ایسا نہ ہو گا جس میں شبانہ روز(یعنی دن رات)زِنا نہ ہوتا ہو ۔ ‘‘ اگر وہ تَعمیم وتَصمیم کرتا(یعنی اگر وہ ایسے الفاظ بولتا جس سے ہر ہر فرد کا یقینی طور پر زنا میں مُلَوَّث ہونا سمجھا جاتا جب) تو بمبئی کے لاکھوں مسلمان مردوں ، مسلمان پارسا بیبیوں پر صریح تُہمتِ مَلعونۂ زِنا تھی ، جس کے سبب وہ (مقرِّر)لاکھوں قَذف([1]) کا مُرتکِب ہوتا اور ایک ہی قَذف گناہِ کبیرہ ہے اورقَذف کرنے والے پر لعنت آئی ہے تو وہ ایک سانس میں لاکھوں گناہِ کبیرہ کا مُرتکِب ہوتا اور لاکھوں لعنتوں کا اِستِحقاق پاتا ہیمگر اُس نے مکان اور کُوچہ میں تردید سے تَعمیم کوروکا اور ’’ نہو گا ‘‘ کے لفظ سے جَزم میں فرق ڈالا(یعنی لفظ ’’ نہو ‘‘ گاکہنے سے کچھ بچت ہو گئی اگر ’’ نہو گا ‘‘ کے بجائے ’’ نہیں ہے ‘‘ کے الفاظ بولدیتا تو صریح تہمتِ زنا لگانے والاقرار پاتا جس کا حکم آگے گزرا ۔ پھر بھی اس قَدَر میں شک نہیں کہ اس نے وہاں کے عام مسلمان مردوں بیبیوں کی حُرمت پر دھبّا لگایا اور اسے خاص مجلسِ وَ عظ میں کہہ کر مسلمانوں کو ناحق بدنام کرنے اور ان میں اشاعتِ فاحِشہ کا بوجھ اپنی گردن پر اٹھایااور بکثرت مسلمانوں کو بِلا وَجہِ شَرعی اِیذا دی ۔ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’ مَنْ اٰذٰیمُسْلِمًا فَقَدْ اٰذانِیْ وَمَنْ اٰذانِیْ فَقَداٰذَی اللّٰہ ‘‘ یعنی جس نے کسی مسلمان کو ناحق اِیذا دی اُس نے مجھے اِیذا دی او رجس نے مجھے اِیذا دی اُس نے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی ۔ ( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطَّبَرَانِیّ ج ۲ ص۳۸۷ حدیث ۳۶۰۷ )
اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-
ترجَمۂ کنز الایمان : وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کیلئے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخِرت میں ۔
جب اس پردونوں جہان میں عذابِ شدید کی وعید ہے تو یہ بھی کبیرہ ہوا اور مُرتکبِ کبیرہ فاسِق ہے اور یہ فِسق بِالاِ علان بَر سرِ مجلسِ و عظ ہوا تو اِس وجہ سے بھی وہ شخص فاسقِ مُعلِن ہُوا اور اس کے پیچھے نَماز مکروہِ تَحریمی ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۶ ص ۵۶۹، ۵۷۰)
عام لوگوں کو بُرا بھلا کہنے کا شَرعی حکم
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اِس بات کو سمجھنے کے لئے فتاوٰی رضویہ شریف جلد 14صفحہ604 پر مرقوم سوال و جواب غور سے پڑھئے اور اگر ایسی غلطیاں کی ہیں تو توبہ کر لیجئے : مسئلہ : کیا فرماتے ہیں عُلمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص اُمُور شَرعی کی بابت یہ الفاظ کہے کہ ’’ شَرع کیا چیز ہے ! آج کل شَرع پر کون عمل کرتا ہے ! یہ شَرع بھی ایک بَحث نکال رکھی ہے ‘‘ وُہ شخص (یعنی ایسا کہنے والا) عِندَ الشّرع کیسا ہے ؟بَیِّنُواتُؤ جَرُوا ۔ (یعنی بیان فرمایئے ثواب کمایئے ) الجواب : اگر اس نے واقعی طور پر یہ لفظ کہے تو کافِر ہو گیا اور اگر لوگوں پر طعن کے طور کہا یعنی آج کل لوگوں نے شَرع کو ایسا سمجھ رکھا ہے تو سخت گنہگار ہوا کہ ’’ عام ‘‘ کہا اور لفظ بھی معنی ٔ کفر کومُوہِم ہیں ۔ ( یعنی مذکورہ بالا جملے میں ذِہن کفریہ معنیٰ کی طرف سَبقت کرتا ہے ) وَاللّٰہُ تَعالٰی اعلم ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص۶۰۴)
’’ سرکار حرام مال کی نیاز بھی قَبول فرما لیتے ہیں ، ‘‘ کہنا کیسا ؟