کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

سُوال : کسی سے کہا گیا  : شریعت پر عمل کرو ۔  تو اس نے کہا :  ’’ کیا شریعت پر عمل کرکے بھوکا مروں   !  ‘‘ اس کا یہ جواب دینا کیساہے ؟

جواب : کفرہے  ۔

 ’’ ہم کو شریعت  نامنظور  ‘‘  کہنا کیسا ؟

سُوال : وِراثَت کی تقسیم پر گفتگو ہورہی تھی  ۔ زید نے خالد سے کہا کہ ہم تم اور سبھی مسلمان شریعت کے پابند ہیں   لہٰذا شریعت کے مطابِق فیصلہ ہونا چاہیے ۔ خالد جو وِراثَت کے مال پر قبضہ کیے ہوئے تھا اُس نے کہا :   ’’ ہم کو شریعت نامنظور ہے بلکہ رَواج منظور ‘‘ اس جملہ کہنے کی وجہ سے خالِد پر کیا حکم ہے ؟ 

جواب : خالد پر حکمِ کفر ہے اور یہ کہ اس کانِکاح فَسخ ہوگیا(یعنی نکاح ٹوٹ گیا) اس پر توبہ فرض ہے ، نئے سرے سے اسلام لائے ۔  اس کے بعد اگر عورت راضی ہو اس سے دوبارہ نکاح کرے ۔    (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص۶۹۱)

شرعی مسائل کی کتاب کی توہین

سُوال : کسی نے حدیث یاشرعی مسائل کی کتاب بطورِ توہین زمین پر دے   ماری اُس کیلئے کیا حکم ہے ؟

جواب :  ایسا کرنا کُفر ہے ۔  اگر کسی نے حدیث یا شرعی مسائل یا سیرت (رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی کتاب کوتوہین اور حقارت کی نیّت سے پھینکا یا پھاڑ دیا تو اُس پر حکمِ کفر ہے ۔ (ایمان کی حفاظت ص۸۰) فُقَہائے کرام  رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلامفرماتے ہیں   : فِقہ کی کتاب کی توہین کفر ہے ۔  (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص۲۸۵،  مِنَحُ الرَّوضص ۴۷۳)

 جو فِقْہْ کا بِالکل ہی انکار کرے اُ س کا حکم

سُوال :  فِقہکسے کہتے ہیں   اورجوسِرے ہی سے فِقہ کو تسلیم نہ کرے اُس کیلئے کیا حکم ہے ؟

جواب :  فِقہ (فِق ۔ ہْ) کے لُغوی معنیٰ کلام کرنے والے کے کلام سے اس کی غَرَض(مقصد) کو سمجھنا ہے (کتابُ التعریفات ص ۱۱۹) اِصطِلاح میں   اَلْعِلْمُ  بِاَحْکَامِ الشَّرِیْعَۃِ یعنی شریعت کے فروعی اَحکام کے علم کو فِقْہ کہتے ہیں   ۔ (اَلْمُفْردات ص ۶۴۲) فِقْہکے انکار کرنے والے کے مُتَعَلِّق فتاوٰی رضویہ جلد14 صَفْحَہ نمبر 622 پرمیرے آقا اعلیٰ حضرت  ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : جو مسلمان کہلا کر فِقہ( یعنی دین کی سمجھ حاصل کرنے ) کو اَصلاً(بِالکل بھی) نہ مانے (تو) نہ کِتابی (ہے ) نہ خارِجی بلکہ مُرتَد ہے ، اسلام سے خارِج ۔ اور اگر کوئی تاویل کرتا ہے تو کم از کم بد دین گمراہ ۔ (فِقہ یعنی  ’’  دین کی سمجھ ‘‘  کا ذکر قراٰنِ پاک میں   موجود ہے )قَالَ اللّٰہُ تعالٰییعنی اللہ  عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :

فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ (پ۱۱ التوبہ ۱۲۲)

ترجَمۂ کنزالایمان : تو کیوں   نہ ہو کہ ان کے ہرگُروہ میں   سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصِل کریں    ۔

(فِقہ یعنی  ’’  دین کی سمجھ ‘‘  کاتذکرہ حدیثِ پاک میں   بھی ہے چُنانچِہ)

            اور رَسُوْلُ اللہ  عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا ارشادِ گرامی ہے :  اللہ  عَزَّوَجَلَّ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتاہے وَاللّٰہُ تَعالٰی اَعلمُ ۔ ۔   ( بُخارِی  ج ۱ ص۴۲ حدیث۷۱)

حدیث کاانکار کرنا کیسا ؟

سُوال :  کیا حدیث کاانکار کُفر ہوتا ہے ؟

جوابمیرے آقا اعلیٰ حضرت  ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  : حدیثِ مُتواتِر کے انکار پر تکفیر کی جاتی(یعنی حکمِ کفر لگایا جاتا) ہے خواہ مُتواتِر بِاللَّفظ ہو یا مُتَواتِرُ المعنی اور حدیث ٹھہرا کر جو کوئی استخفاف کرے تو یہ مُطلقاً کفر ہے اگرچِہ حدیث اَحادبلکہ ضَعیف بلکہ فی الواقِع اس سے بھی نازِل (یعنی کم درجہ) ہو ۔ واللہ تعالیٰ اعلم       (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص ۲۸۰)

            حدیث ٹھہرا کر انکار کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ قائل  یہ مراد لے کہ فُلاں   بات سرکارِ کائنات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ  غَلَط

 ارشاد فرما دی تو یہ قائل قطعی کافر و مُرتَد ہے ۔   

مُنکرِحدیث کے بارے میں   حکم

سُوال : جو مطلقاً حدیثِ کامنکِر ہو اور کہتا ہومیں   صِرف قراٰنِ مجید کو مانتا ہوں   ’’  حدیث کاکوئی اعتبار نہیں   ‘‘  اُس ٍکے بارے میں  شریعت کا کیا حکم ہے ؟

جواب :  ایسے منکرِحدیث کے بارے میں   میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے  ہیں   : جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا منکر ہے اور جو نبی  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مُنکِر ہے وہ قراٰنِ مجید کا منکر اورجو قراٰن مجید کا منکر ہے اللّٰہ واحدِقَہّار کامنکِرہے اور جو اللّٰہ کا منکر ہے صریح مُرتَد کافِر ہے ۔       (فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص

Index