کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

                                    چُوں   وُضوئے محکم بی بی تمیز

(یعنی جس طرح ایک جاہِلہ عورت یہ نہیں   سمجھتی کہ رِیح وغیرہ خارِج ہونے سے وُضو کیسے ٹوٹتا ہے ، گویا اسی طرح یہ شُبہ وارِد کرنے والے بھی یہ جاننے سے قاصِر ہیں   کہ کفرِیّات سے ایمان کیسے چلا جا تا ہے ! )

            اوَّلاً اس مکر کاجواب :  (پارہ 2 سورۃُ البَقرہ آیت77 1میں  )تمہار ا رب عَزَّوَجَلَّ    فرماتا ہے :

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-                   ( پ ۲البقرۃ ۱۷۷)

ترجَمۂ کنزالایمان  : کچھ اصل نیکی یہ نہیں   کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو، ہاں   اصل نیکی یہ کہ ایمان لائے  اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اورقِیامت اور فرشتوں   اور کتاب اور پیغمبروں   پر  ۔

               دیکھو !  صاف فرما دیا کہ ضَروریاتِ دین پر ایمان لانا ہی اصل کار (کام) ہے بِغیر اس کے نَماز میں   قبلہ کو منہ کرنا کوئی چیز نہیں   ۔ اور (پارہ 10 سورۃُ التَّوبہ آیت 54 میں  )فر ما تا ہے :  

وَ مَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(۵۴)( پ ۱۰توبہ ۵۴)

ترجَمۂ کنزالایمان  : اور  وہ جو خرچ کرتے ہیں   اس کا قَبول ہونابند نہ ہوا مگر اسی لئے کہ وہ اللہ اور رسول سے مُنکِر ہوئے اور نماز کو نہیں   آتے مگر جی ہارے اور خرچ نہیں   کرتے مگرناگواری سے ۔

            دیکھو !  ان کا نَماز پڑھنا بیان کیا او ر پھر انہیں   کافِر فرمایا ۔ کیا وہ قِبلہ کو نَماز نہیں   پڑھتے تھے ؟فَقَط قبلہ کیسا، قبلۂ دل وجاں   ،  کعبۂ دین وایماں   ، سَروَرِ عالمیاں   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے جانبِ قِبلہ نَماز پڑھتے تھے اور(پارہ 10 سورۃُ التَّوبہ آیت 11تا 12    میں  ) فرماتا ہے :  فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِؕ-وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۱۱)وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَىٕمَّةَ الْكُفْرِۙ-اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ(۱۲)

ترجَمۂ کنزالایمان  : پھر اگر وہ توبہ کریں   اور نَماز قائم رکھیں   اور زکوٰۃ دیں   تووہ تمہارے دینی بھائی ہیں   اور ہم آیتیں   مُفَصَّل بیان کرتے ہیں   جاننے والوں   کے لئے  ۔ اور اگر عہد کرکے اپنی قسمیں   توڑیں   اور تمہارے دین پر منہ آئیں   تو کُفر کے سَرغَنوں    سے لڑو بے شک ان کی قَسمیں   کچھ نہیں  اس اُمّید پر کہ شاید وہ باز آئیں   ۔

            دیکھو ! نَمازوزکوٰۃ والے اگر دین پرطَعنہ کریں   تو انہیں   کُفر کا پیشوا ، کافِروں   کا سَرغَنہ(گُرو گھنٹال) فرمایا، (تو)کیاخُدا اور رسول کی شان میں   وہ گستاخیاں  دین پرطَعنہ نہیں  ؟(یعنی ضَروربِالضَّرور یہ اُمُور بھی کُفرہی ہیں  ) (تمہید الایمان مع حاشیہ ص۹۷ ۔ ۹۹

نیک نَمازی کیسے کافِر ہو سکتا ہے ؟

سُوال : جو مسلمان کے گھر میں   پیدا ہوا، نیک نَمازی بھی ہے وہ کیسے کافِر ہوسکتا ہے ؟

جواب :  مسلمان ہونے کیلئے  ’’  نَمازی ‘‘  ہونا کافی نہیں   اور کافِر ہونے کیلئے   ’’ بے نَمازی ‘‘ ہونا شَرط نہیں   ۔ دیکھئے ! قادِیانی لوگ مسجِدیں   بھی بناتے اور نَمازیں   بھی پڑھتے ہیں   مگر نہ اُن کی مسجِد، مسجِد ہے نہ اُن کی نَماز، نماز کیوں   کہ وہ کافِر ہیں   ۔ دینِ اسلام کی بُنیاد ایمان پر ہے جب تک ایمان باقی رہے گا بندہ مسلمان کہلائے گا، اورجب کوئی بد نصیب مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گاتو خارِج اَز اسلام ہو جائے گا ۔  قراٰنِ مجید کے پارہ 6سورۂ مائِدہ کی آیت 5میں   واضِح الفاظ میں   بیان فرما دیاگیا :

وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ٘-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۠(۵)      ( پ۶ : المائدہ : ۵)

ترجَمۂ کنزالایمان : اور جو مسلمان ، سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اَکارت([1]) گیا اور وہ آخِرت میں   زیاں   کار([2]) ہے  ۔

حاجی نَمازی کوئی بھی ہو سب کیلئے کفر کا خوف ہے

          دیکھئے ! کس قَدَر واضِح الفاظ میں   اللّٰہُرَحمٰن عَزَّوَجَلَّ  نے مسلمان کو ڈرا یاہے کہ خبردار !  اگر کافِرہو گئے توسب کچھ اَکارَت(برباد) ہو جائے گا  ۔ اگر ایک دفعہ ایمان لا کر کفر کا کوئی اندیشہ نہ ہوتا تو اللہ تبارک وَ تعالیٰ کافِر ہوجانے سے کیوں   ڈراتا ؟بہرحال حاجی، نَمازی، روزہ دار وغیرہ جو کوئی بھی ہو اگر وہ کسی ضَرورتِ دینی کاانکار کرے گا تو کافِر ہی ٹھہرے گا ۔  چُنانچِہ فِقہِ حنفی کی مشہور کتاب رَدُّالْمُحْتَار جلد 2 صَفْحَہ357 پر ہے :  ’’ اُس شخص کے کفر کے بارے میں   کوئی اختلاف نہیں   جو ضَروریاتِ دین میں   سے کسی چیز کا انکار کرے اگرچِہ وہ اہلِ قِبلہمیں   سے ہو اگر چِہ کہ تمام عمرطاعات وعبادات کرتا رہے ۔  ‘‘

ایمان سینے میں  داخِل ہوکر نکل بھی سکتا ہے  !

سُوال :   کتاب ’’  کُفریہ کلمات کے بارے میں   سُوال جواب ‘‘  پڑھ کر تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ سینے میں  ایمان داخِل ہو کر بسا اوقات واپَس بھی نکل جاتا اور سابق مسلمان اصلی کافر سے بھی بد تر کافِریعنی مُرتَد ہو جاتا ہے ! اِس کیمُتَعَلِّق کچھ مَدَنی پھول عنایت کردیجئے ۔

جواب :  جی ہاں   ایسا ہی ہے ۔  لہٰذا ایک بار ایمان لے آنے کے بعد موت تک اس کی حفاظت کی فکر لازِم ہے ورنہ اگر کوئی قَطعی کفر صادِر ہو گیا تو اصلی کافِر سے بھی بد تر یعنی مُرتد ہو جائیگا ۔ ہم اس سے  اللہ  عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتے ہیں   ۔ ایمان کی حفاظت کا ذِہن دینے ہی کیلئے اِس کتاب میں  بُری صُحبت سے اِجتِناب اور زَبان کی اِحتِیاط پر بھی کافی زور دیاگیا ہے کہ صُحبتِ بد اور



Index