{20} نَجاست کے قریب پھینک دیا تو کافر ہے ۔
{21}جوشخص قرآنِ مجید کو ناقِص کہے وہ کافر ہے ۔ (فتاویٰ امجدیہ ج۴ ص ۴۴۲)
{22}اگر کوئی قرآنِ عظیم میں موجود انبِیاء کے واقِعات یا{23} رسولوں کے مُعجِزات کا اِنکار کرے یا {24}قرآنِ کریم میں جو چِیونٹیوں اور{25}ہُدہُد کے کلام کرنے کا تذکِرہ ہے اس میں شک کرے یا {26}حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللہعَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور جادوگروں کے قصّے {27} واقعۂ اَسْرٰی (مسجد حرام سے مسجدِ اقصٰی تک ) {28}اَصحابِ فیل اور{29}ان پر حملہ کرنے والے اَبابِیل پرندوں کے واقِعات {30 }اَصحابِ کَہْف کا قصّہ {31 }حضرت سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے آگ میں ڈالے جانے کا واقِعہ وغیرہ وغیرہ قِصَصِ قرآن(یعنی قراٰنِ پاک میں بیان کردہ قِصّوں ) کے سچّاہونے میں شک کرے وہ کافِرہے ۔ جب کہ اصل واقِعے کے وُجُود ہی کا انکار کرے ۔ البتّہ اس کی کوئی ایسی تفصیل جو قرآنِ پاک میں صَراحت سے (یعنی صاف صاف) مذکور نہیں ہے اس کے انکار پر حکمِ کفر نہیں ہے ۔
{32} ’’ آیات و احادیث کچھ نہیں ‘‘ کہنے والا کافر و مُرتَدہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۳ ص ۶۵۴)
{33} قرآنِ کریم میں جو ملائکہ {34}جِنّات اور{35} شیاطین کے واقِعات ہیں ان کو ’’ خَیالی کہانیاں ‘‘ کہنے والاکافر ہے ۔
{36}قرآنِ مجید میں جو کسی ایک لفظ{37}ایک حَرف یا {38} ایک نُقطے کی کمی بیشی کا بھی قائل ہے یقینا کافر و مُرتَد ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ مخرَّجہ ج۱۱ ص۶۹۱ماخوذاً)
{39} اگرکوئی یہ دعویٰ کرے کہ قرآنِ پاک میں جو کچھ ہے ان میں بعض سے بعض یقینا ٹکراتا ہے تو وہ کافر ہے ۔ اگر ناسخ و منسوخ کے سبب کہتا ہے تو تاویل ہے اور اگر نقص یعنی خامی نکالتا ہے تو کافر ۔
{40} اگر کوئی قرآنِ پاک کے مُعجزہ ہونے میں شک کرے یا {41} اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازِل کئے جانے میں شک کرے تو کافِر ہے ۔
{42}اگر کوئی یہ کہے کہ ِاس زمانے میں پڑھے لکھے لوگ مل جُل کر کوشِش کریں تو قرآنِ کریم کی مِثل یا قرآنِ عظیم سے بہتر کتاب لاسکتے ہیں تو وہ کافِر ہے ۔
نبی کی گستاخی کے بارے میں سُوال جواب
سُوال : نبی کی گستاخی کرنے والے کیلئے کیا حکم ہے ؟
جواب : نبی کی ادنیٰ سی گستاخی کرنے والا بھی کافر و مُرتَد ہے ۔ ’’ شِفا ء شریف ‘‘ صَفْحَہ 215 پر ہے : عُلماء کا اِجماع ہے کہ حُضُورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں گستاخی کرنے والا کافِر ہے اور اس پر عذابِ الٰہی کی وعید جاری ہے اور امّت کے نزدیک وہ واجبُ الْقَتل ہے اور جو اس کے کفر اورعذاب ہونے میں شک کرے وہ بھی کافِر ہے ۔ (اَلشِّفا ج۲ ص۲۱۵)
گستاخ کے ساتھ کیا سُلوک ہونا چاہئے ؟
سُوال : گستاخِ رسول کے ساتھ مسلمانوں کو کیاسُلوک کرنا چاہئے ؟
جواب : اِس ضِمْن میں میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی خدمت میں کئے گئے سوال جواب کاخُلاصہ عرض کرتا ہوں : ۔ سُوال : ایک مُقرِّر نے جلسے میں کہا : ’’ حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خیال فرمایا کہ میرے
دانت ایسے روشن ہیں کہ آج تک کسی کے ایسے نہ ہوئے ۔ (معاذاللہ) اِس تکبُّر کی بِنا پرحُضُورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دندانِ اقدس جنگِ اُحُد میں شہید ہو گیا تھا ۔ ‘‘ الجواب : اس نے حُضُورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں مَعاذَاللّٰہ ’’ تکبُّر ‘‘ کا لفظ کہا، یہ صریح کفر ہے ۔ اُس کا ایمان جاتا رہا، اُس کی عورت اُس کے نِکاح سے نکل گئی ۔ اُس نے جیسے مجمع میں یہ جُملہ کہا اِسی قسم کے مَجمع میں توبہ کرے اور اِسلام لائے ۔ ا گر نئے سرے سے اسلام نہ لائے تو مسلمانوں کو اُس سے سلام و کلام حرام ، اس کے پاس بیٹھنا حرام، اس کی شادی غمی میں شریک ہونا حرام ، بیمار پڑے ، تو اُسے پوچھنے جانا حرام ، مر جائے تو اُس کے جنازے پر جانا