خاتَمُ النَّبِیِّین ‘‘ ہیں حُضُورِاکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ۔ عوام سے مُراد وہ مُسلمان ہیں جو عُلَماء کے طبقہ میں شُمار نہ کئے جاتے ہوں مگر عُلَماء کی صُحبت میں بیٹھنے والے ہوں اورعِلمی مسائل کا ذَوق رکھتے ہوں ۔ وہ لوگ مُراد نہیں جو دُور دراز جنگلوں پہاڑوں میں رہنے والے ہوں جنہیں صحیح کَلِمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو کہ ایسے لوگوں کا ضَرور یا تِ دین سے ناواقِف ہونا اِس دینی ضَروری کو غیرضَروری نہ کردے گا ۔ البتّہ ایسے لوگوں کے مسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضَروری ہے کہ ضَرور یا تِ دین کے مُنکِر(یعنی انکار کرنے والے ) نہ ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے ۔ ان سب پر اِجمالاً ایمان لائے ہوں ۔ ( بہارِ شریعتحصّہ ۱ ص۹۲مُلَخَّصاً)
ضَرور یا تِ دین کی مزید وضاحت کیلئے نُزْہَۃُ الْقاری شرحِ صحیح البخاری جلد اوّل صَفْحَہ 239 سے اِقتِباس مُلا حَظہ ہو، چُنانچِہ شارِحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ایمان کی تعریف میں ضَرور یا تِ دین کا (جو) لفظ آیا ہے ، اس سے مُراد وہ دینی باتیں ہیں جن کا دین سے ہوناایسی قَطعی یقینی دلیل سے ثابِت ہو جس میں ذرّہ برابر شُبہ نہ ہواور ان کا دینی بات ہونا ہر عام و خاص کومعلوم ہو ۔ خواص سے مُرادعُلماء ہیں اور عوام سے مُراد وہ لوگ ہیں جو عالم نہیں مگر عُلماء کی صُحبت میں رہتے ہوں ۔ اِس بِنا پر وہ دینی باتیں جن کادینی بات ہونا سب کو معلوم ہے مگر ان کاثُبُوتقَطْعی نہیں تو وہ ضروریاتِ دین سے نہیں مَثَلاً عذابِ قبر ، اعمال کاوَزن ۔ یونہی وہ باتیں جن کاثُبُوت قَطْعی ہے مگر ان کا دین سے ہونا عوام و خواص سب کومعلوم نہیں تو وہ بھی ضَروریاتِ دین سے نہیں ، جیسے صُلْبی بیٹی ([1])کے ساتھ اگر پوتی ہو تو پوتی کو چھٹا حصّہ ملیگا ۔
جن دینی باتوں کاثُبُوت قَطْعی ہو اور وہ ضَرور یا تِ دین سے نہ ہوں ان کامُنکِر(یعنی انکار کرنے والا) اگراس کے ثُبُوت کیقَطْعی ہونے کو جانتا ہو تو کافِر ہے اور اگر نہ جانتا ہو تو اسے بتایا جائے ، بتانے پر اگر حق مانے تو مسلمان اور بتانے کے بعد بھی اگر انکار کرے تو کافر ۔ (شامی ج۳ ص ۳۰۹)
وہ باتیں جن کا دین سے ہوناسب کومعلوم ہے مگر ان کاثُبوتقَطْعی نہیں ان کامُنکِر کافر نہیں اگر یہ باتیں ضَروریاتِ مذہب ِ اہلسنَّت سے ہوں تو ( انکار کرنے والا) گمراہ اور اگر اس سے بھی نہ ہو تو خاطی ( یعنی خطار کار) ۔
مذہبِ اہلسنّت کی ضَروریات کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ اس کا مذہبِ اہلسنّت سے ہونا سب عوام و خواصِ اہلسنّت کو معلوم ہو ۔ جیسے عذابِ قبر ، اعمال کا وزن ۔ (نُزْہَۃُ الْقاری شرحِ صحیح البخاری ج۱ ص۲۳۹ )
سُوال : توحید کسے کہتے ہیں ؟
جواب : اللہ تعالیٰ کو اُس کی ذات و صِفات اور اَحکام و اَفعال میں شریک سے پاک ماننا توحید ہے ۔
سُوال : شرک کے کیا معنیٰ ہیں ؟
جواب : شرک کا معنیٰ ہے : اللہعَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کو واجِبُ الوُجُود یامستحقِ عبادت (کسی کو عبادت کے لائق ) جاننا یعنی اُلُوہِیَّت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بد ترین قسم ہے ۔ اس کے سوا کوئی بات کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں ۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۱ ص۹۶مُلَخَّصاً)
واجِبُ الوُجُود کسے کہتے ہیں ؟
سُوال : ابھی آپ نے واجِبُ الوُجُود کی اِصطِلاح بیان کی اِس کے معنیٰ بھی بتا دیجئے ۔
جواب : واجِبُ الوُجُود ایسی ذات کو کہتے ہیں جس کا وُجود(یعنی ’’ ہونا ‘‘ ) ضَروری اور عَدَم مُحال (یعنی نہ ہونا غیر ممکن) ہے یعنی (وہ ذات)ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، جس کو کبھی فنا نہیں ، کسی نے اِس کو پیدا نہیں کیا بلکہ اِسی نے سب کو پیدا کیا ہے ۔ جو خود اپنے آپ سے موجود ہے اور یہ صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ذات ہے ۔ (ہمارا اسلام حصّہ سِوُم ص ۹۵)
سُوال : نِفاق کی کیا تعریف ہے ؟
جواب : زَبان سے اسلام کا دعوٰی کرنا اور دل میں اسلام سے انکار کرنا نِفاق ہے ۔ یہ بھی خالِص کُفر ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لئے جہنَّم کا سب سے نِچلاطبقہ ہے ۔ سرورِ کائنات، شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہِری حیات کے زمانے میں اِس صِفَت کے کچھ افراد بطورِ مُنافِقِین مشہور ہوئے ، ان کے باطِنی کُفر کو قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے ۔ نیز سلطانِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بعطائے الہٰی عَزَّوَجَلَّ اپنے وسیع عِلم سے ایک ایک کو پہچانا اورنام بنام فرمادیا کہ یہ یہ منافِق ہیں ۔ اب اِس زمانے میں کسی مخصوص شخص کی نسبت یقین سے کہنا کہ وہ مُنافِقہے ممکِن نہیں کہ ہمارے سامنے جو اسلام کا دعویٰ کرے ہم اُسے مسلمان ہی سمجھیں گے جب تک کہ ایمان کے مُنافی(یعنی ایمان کے اُلٹ) کوئی
[1] نزھۃُ القاری کے نسخوں میں اس جگہ''بیٹی''کے بجائے ''بیٹیوں'' لکھا ہے جو کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت علامہ ابن ہُمام علیہ رحمۃُ اللہ السّلام ''المسایرہ'' صَفْحَہ 360پر تحریر فرماتے ہیں : جن کاثُبُوت قَطْعی ہے مگروہ ضَروریاتِ دین کی حد کو نہ پہنچا ہو جیسے ( میراث میں ) صُلْبی بیٹی کے ساتھ اگر پوتی ہو تو پوتی کو چھٹا حصّہ ملنے کاحکم اجماع اُمّت سے ثابت ہے ...الخ ( المسایرۃ ص360)