کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

سُوال : یہودو نصارٰی کو اِصطِلاحی معنیٰ میں   نہیں   لُغْوی معنیٰ میں   اگراہلِ ایمان کہا جائے تو کیا حکم ہے ؟

جواب :  یہ دلیل بھی باطل ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  :  ’’ صریح لفظ میں   تاویل نہیں   سنی جاتی  ۔  ‘‘ فتاوٰی عالمگیری(جلد2 صفحہ 363) میں   ہے :   ’’  اگر کوئی اپنے آپ کو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کا رسول کہے یابَزَبانِ فارسی کہے میں   پیغمبر ہوں   اورمُراد یہ لے کہ میں   کسی کا پیغام پہنچانے والا ایلچی (یعنی قاصِد یا ڈاکیہ)ہوں   کافِر ہو جائے گا ۔   ‘‘  اور حضرت مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری شرحِ شِفاء (جلد2صفحہ 396) میں   فرماتے ہیں  :  ’’  وہ جو اس مَردَک(مَر ۔ دَکْ یعنی ذلیل شخص) نے کہا کہ میں   نے ( رسول سے ) بِچھّو مُراد لیا اِس طرح اس نے رسالتِ عُرفی کو معنیٔ لُغوی کی طرف ڈھالا کہ بچھّو کو بھی خُدا ہی نے بھیجا اورخَلق پر مُسَلَّط کیاہے اور ایسی تاویل قواعِدِ شرع کے نزدیک مردود ہے ۔  ‘‘         (فتاوٰی رضویہ ج ۱۵ص۵۷۸ ۔ ۵۷۹مُلَخَّصًا)

کافِر کے اِسلام قَبول کرنے کے بارے میں  سُوال جواب

قَبولِ اسلام کے طالِب کو سوچنے کا مشورہ دینا کیسا ؟

سُوال :  کوئی کافر اگرمسلمان ہونا چاہے تو اُس کو اِس طرح سمجھانا کیسا کہ بھائی ! خوب اچّھی طرح غور کر لو کہیں   مسلمان ہونے کے بعد پریشانی نہ اُٹھانی پڑے ۔

جواب : کافِرکو اس طرح سمجھانا مسلمان ہونے سے روکنا ہوا، اُس سمجھانے والے پر حکمِ کُفر ہے  ۔ جب بھی کوئی کافِر مسلمان ہونا چاہے اس کو فوراً مسلمان کرنا فرض ہے ۔  اور اگر وہ پریشانیاں   آنے کی بات کرے تواُس کو تلقینِ صَبْر کیجئے ۔

کافرکے مُطالَبہ پر عالِم کے پاس قَبولِ اسلام کیلئے لے جانا

سُوال : اگر کوئی کافر کسی مسلمان سے کہے کہ فُلاں   عالِم کے پاس لے چلو مجھے انہی کے ہاتھ پر اسلام قَبول کرنا ہے تو اُس مسلمان کو کیا کرنا چاہئے ؟

جواب :  چُونکہ اُس کا مطالَبہ ہے لہٰذااُسے اُس عالم صاحِب کی خدمت میں   پیش کر دے ایسا کرنے میں   وہ مسلمان گنہگار نہیں   بلکہ ثواب کا حقدار ہے ۔

کافر کو مسلمان کرنے کا طریقہ

سُوال : کسی کافِر کو مسلمان کرنے کا آسان طریقہ ارشاد فرمائیے ۔

جواب : کافِر کو مسلمان کرنے کے لئے پہلے اُ سے اُس کے باطِل مذہب سے توبہ کروائی جائے مَثَلاً مسلمان ہونے کا خواہش مندکرسچین ہے ، تو اُس سے کہئے : کہو،  ’’  میں   کرسچین مذہب سے توبہ کرتا ہوں    ‘‘  جب وہ یہ کہہ لے پھر اُسے کلِمہ طیِّبہ یا کلمۂ شہادت پڑھائیے اگر عَرَبی نہیں   جانتا تو جو بھی زَبان سمجھتا ہو اُسی زبان میں   ترجَمہ بھی کہلوا لیجئے اگر وہ عَرَبی کلمہ نہیں   پڑھ پارہا تو اُسی کی زَبان میں   اُس سے شَھادَتَیْن کا اِقرار باآواز کروالیجئے یعنی وہ کہہ دے کہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائِق نہیں  ، محمّدصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   اللہ  عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں   ۔ اِس طرح سے وہ شخص مسلمان ہو جائے گا ۔

کیا قَبولِ اسلام سے قَبل نہانا ضَروری ہے ؟

سُوال :  کیاقَبولِ اسلام سے قبل کافر کو نہلانا فرض ہے ؟

جواب : قَبولِ اسلام سے قبل غسل کروانا فرض نہیں   بلکہ خواشمند کو فوراً مسلمان کرنا فرض ہے ۔ البتّہ قبولِ اسلام کے بعد اَفضل ہے ۔ اِس کی صورتیں   بیان کرتے ہوئیصدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   :  ’’ کافر مرد یا عورت جنب ہے یا حَیض و نِفاس والی کافرہ عورت اب مسلمان ہوئی، اگرچہ اسلام سے پہلے حَیض و نِفاس سے فراغت ہو چکی، صحیح یہ ہے کہ ان پر غُسل واجب ہے ۔  ہاں   اگر اسلام لانے سے پہلے غُسل کر چکے ہوں   یا کسی طرح تمام بدن پر پانی بہ گیا ہو تو صرف ناک میں   نَرْم بانسے تک پانی چڑھانا کافی ہو  گا کہ یہی وہ چیز ہے جو کفار سے ادا نہیں   ہوتی ۔  پانی کے بڑے بڑے گھونٹ پینے سے کُلّی کا فرض ادا ہو جاتا ہے اور اگر یہ بھی باقی  رہ گیاہو تو اسے بھی بجالائیں  ، غرض جتنے اعضا کا دھلنا غُسل    میں   فرض ہے ، جِماع وغیرہ اسباب کے بعد اگر وہ سب بحالتِ کفر ہی دُھل چکے تھے تو بعد اسلام اعادۂ غُسل ضرور نہیں  ، ورنہ جتنا حصہ باقی ہو اتنے کا دھولینا فرض ہے اور مستحب تو یہ ہے کہ بعد اسلام پورا غُسل کرے ۔  ‘‘   (بہارِ شریعت حصّہ ۲ ص ۴۶، مکتبۃ المدینہ )

نَو مسلِم کا خَتنہ

سُوال :  اگر بالِغ شخص مسلمان ہوا تو کیا اُس کا خَتنہ کروانا ضَروری ہے ؟

جواب :    ختنہ سُنَّتِمُؤَکَّدہ اورشِعارِ اسلام ہے ( فتاویٰ افریقہ ص۴۶ ملخصاً )نومسلِم کے خَتنہ کی صورَتیں   بیان کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہرحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہجلد22 صَفْحَہ 593 پر فرماتے ہیں  : ہاں   اگر خود کر سکتا ہو تو آپ اپنے ہاتھ سے کر لے یا کوئی عورت جو اس کا م کو کرسکتی ہو، ممکن ہو تو اُس سے نکاح کرادیا جائے وہ ختنہ کردے ، اس کے بعد چاہے تو اسے چھوڑ دے (یعنی طلاق دیدے ) یا کوئی کنیزِ شرعی (ختنہ سے ) واقِف ہو تو وہ خرید دی جائے  ۔ (فی زمانہ غلام اور کنیز کا سلسلہ بند ہے ) اور اگر یہ تینوں   صورَتیں   نہ ہو سکیں   تو حجام ختنہ کردے کہ ایسی ضَرورت کیلئے سِتْر دیکھنا دِکھانا مَنع نہیں  ۔ دُرِّمختار میں   ہے  : بوقتِ ضَرورت بَقَدَرِ ضَرورت طبیب مرض کی جگہ کو دیکھ سکتا ہے اورقَدَرِ ضَرورت (یعنی ضَرورت کی مقدار)مَحض اندازے سے (طے ) ہوگی ، اِسی طرح دایہ اور ختنہ کرنے والے کا معامَلہ ہے ۔ (دُرِّمختار ج۹ ص۶۱۱) سیِّدُنا اما م کرخی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے  ’’  جامعِ صغیر  ‘‘ میں   فرمایاکہ  : بالِغ آدَمی کا ختنہحَماّم والا (حجام)کرے ۔  (عالَمگیری ج۵، ص۳۵۷  )   بَہُت بوڑھا شخص اگر اسلام قَبول کرے اور ختنہ کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اگر چند اہلِ نظر رائے

Index