سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ وہ اسے مال کی کمی کا طعنہ دیں گے ، اُس وقت وہ اپنے آپ کو ایسی جگہوں پر لے جائے گا جہاں وہ اپنی جان کو ہلاک کر لے گا ۔ ‘‘ ( تو گویا انہیں کے ہاتھوں ہلاک ہوا) ۔ (الزھد للبیھقی ص ۱۸۳ رقم ۴۳۹)
بہن سے نِکاح کو جائز سمجھنا کیسا ؟
سُوال : اپنی بہن کے ساتھ نکاح کو حلال جاننے والے کیلئے کیا حکمِ شرعی ہے ؟
جواب : ایسا شخص کافِر ہے ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلامفرماتے ہیں : مُحَرَّمات(مَثَلاً، ماں ، بہن ، بیٹی ، بھانجی، بھتیجی وغیرہ ) سے نکاح کو حلال سمجھنا ، بِلا ضَرورت ِ شَرْعی شراب(خمر)پینے یا مُردار کھانے یا خون پینے یاخنزیز کا گوشت کھانے کو حلال سمجھنا کُفر ہے ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص ۵۰۳ )
سُوال : سُود کو حلال جاننے والا کیسا ہے ؟
جواب : کافِر ہے ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام فرماتے ہیں : (بِلا اجازتِ شَرعی)قتلِ نَفس(یعنی قتلِ مسلم) کویا یتیم کا مال کھاجانے کو یا سُود کو حلال سمجھنا کُفر ہے ۔ ( مِنَحُ الرَّوض ص ۴۶۸)
ہر حال میں گوشت کو حرام کہنے والے کاحکم
سُوال : اُس کیلئے کیا حکم ہے جو یہ کہے : گوشت کھانا کسی بھی صورت میں حلال نہیں ۔
جواب : مُطلَقاًگوشت کو حرام کہنا کُفرہے کہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے حلال کردہ کو حرام ٹھہرانا ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : نَماز کا مُنکِر کافِر ہے ، روزہ کا مُنکِر کافر ہے ، جو نَماز پڑھنے کو بُرا کہے ، نمازی پرنماز پڑھنے کی وجہ سے طعن و تشنیع کرے کافِر ہے ، روزہ رکھنے کو جو بُرا کہے ، روزہ دار پر روزہ کی وجہ سے طعن کرے وہ کافِر ہے ، گوشت کھانے کومُطْلَقاً حرام کہنا کُفر ہے ، قربانی کو ظلم کہنے والا کافِر ہے ، ان اِعتِقادوں والے مُطلَقاً کُفّار ہیں ۔ پھر اگر اس کے ساتھ اپنے آپ کو مسلمان کہتے یا کلمہ پڑھتے ہوں تو مُرتَد ہیں کہ (مُرتَدین) دنیا میں سب سے بد تر کافِر ہیں ، ان سے مَیل جُول حرام ، ان کے پاس بیٹھنا حرام، بیمار پڑیں تو ان کو پوچھنے جانا حرام، مرجائیں تو ان کے جنازے کی نَماز حرام ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص۳۵۶)
سُوال : زَید نے والِد صاحِب کے انتِقال کے بعد وُرثا کوان کاحق دینے کے بجائے سارے مال پر غاصِبانہ قبضہ کر لیا ۔ سمجھانے کی کوشِش کرنے پر اُس نے بغیر کسی حیلہ شرعیہ کے مطلقاً اِس غصب کو حلال قرار دیا ۔ زید کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب : مذکورہ غصَب حرام ہے ، غصب کی حُرمت ضَروریاتِ دین میں سے ہے لہٰذا اگر واقِعی زَید نے غصَب کو حلال قرار دیا ہے تو اُس پر حکمِ کفر ہے ۔ ایسے ہی ایک سُوال کے جواب میں میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ’’ اگر معلوم ہوجائے کہ اس نے حرام کوحلال جانا تو اس وَقتلُزومِ کُفر ہوگا بلکہعِندَ التَّحقیقبِلاشُبہ کُفر ہو گا ، کیونکہ کفر کا دارو مدار ضَروریاتِ دین کے انکار پر ہے اور اس میں شک نہیں کہ بِغیر حِیلۂ شرعِیّہ مَثَلاً کسی سے اپنے حق کے بدلے لینا جبکہ وہ مُنکِر ہو اوربِغیر ایسی ضَرورت جو اِس کو مَخمَصہ(مَثَلاً بھوک کی اِضطِراری حالت) میں مُبتَلاکر دے ۔ غَصَب کی حُرمت ضُروریاتِ دین میں سے ہے ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۱۹ ص۶۷۵)
حرام کو حلال کہنے کے مُتَعَلِّق کُفریات کی11 مثالیں
{1}جس نے کہا : ’’ میں حلال و حرام کو نہیں پہچانتا ‘‘ اس پر حکمِ کفر ہے جبکہ کہنے والا حرام و حلال کو برابر یعنی ایک طرح کا سمجھے ۔ ( مِنَحُ الرَّوض ص ۴۷۳)
{2} جس نے کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام مان لیا تو وہ کافِر ہو جائے گا ، یہ اِس صورت میں ہے کہ وہ حرام لذاتہٖ ہو اور اس کی حرمت دلیلِ قَطعی سے ثابِت ہو ۔ (ماخوذ از فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص ۱۴۷، خلاصۃُالفتاوٰی ج۴ ص ۳۸۳ )اور وہ ضروریات دین کی حد تک ہو ۔
{3}رِزقِ حرام کھانے کے بعد اس پر اَلحَمدُ للّٰہ کہنا کفر ہے کہ یہ رِزقِ حرام کھانے کو پسند کرنا ہے البتّہ اگر مُطلَق رِزق پر اَلحَمدُ لِلّٰہ کہا قَطع نظر اِس کے کہ یہحرامہے یا حلال تو حکمِ کفر نہیں ۔ ( مِنَحُ الرَّوض ص ۴۶۲)
{4}مرد کیلئے ریشم کیحرام ہونے کا انکار کفر ہے ۔ (اَیْضاً ص۴۵۳ ۔ ۴۵۴)
{5} اجازتِ شرعی کے بِغیر کہے : فُلاں کا قتل حلال ہے اس پر حکمِ کفر ہے ۔ ( مِنَحُ الرَّوض ص۴۸۵)
{6}