کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

مُرتَد کی دُنیا میں   سزا

سُوال :  کیا مُرتَد کی دنیا میں   بھی کوئی سزا ہے ؟

جواب : جی ہاں   ۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ182صَفحات پر مشتمل کتاب ،  ’’ بہارِ شریعت ‘‘ حصّہ9 صَفْحَہ174تا175پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   : جو شخص مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ  مُرتَد ہو گیا تو مُستَحَب ہے کہ حاکمِ اسلام اُس پر اسلام پیش کرے اور اگر وہ کچھ شُبہ بیان کرے تو اُس کا جواب دے اور اگرمُہلَت مانگے تو تین دن قید میں   رکھے اور ہر روز اسلام کی تلقین کرے  ۔ یوہیں   اگر اُس نے مُہْلَت نہ ما نگی مگر امّید ہے کہ اسلام قَبول کر لے گا جب بھی تین دن قید میں   رکھا جائے ۔  پھر اگر مسلمان ہو جائے فَبِہا(یعنی بَہُت بہتر) ورنہ قتل کر دیا جائے ۔  بِغیر اسلام پیش کیے اُسے قتل کر ڈالنا مکر وہ ہے ۔  (دُرِّمُختار ج۶ ص ۳۴۶ ۔ ۳۴۹)

کیا مُرتَد کو  ہرکوئی  قَتل کر سکتا ہے ؟

سُوال :  کیا مُرتَد کو ہرکوئی قتل کر سکتا ہے ؟

جواب : جی نہیں  ۔ یہ صرف بادشاہِ اسلام کا کام ہے ۔ چُنانچِہصدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی   فرماتے ہیں   : مُرتَد کو قید کرنا اور اسلام نہ قبول کرنے پر قتل کر ڈالنا بادشاہِ اسلام کا کام ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایسا شخص اگر زندہ رہا اور اس سے تَعَرُّض نہ کیا گیا (یعنی روک ٹوک نہ کی گئی )تو ملک میں   طرح طرح کے فساد پیدا ہو نگے اور فتنہ کا سلسلہ روز بروز ترقّی پذیر ہو گا، جس کی وجہ سے اَمْنِ عامّہ میں   خَلل پڑیگا ، لہٰذا ایسے شخص کو ختم کر دینا ہی مُقتَضائے حکمت(یعنی مَصلَحت کا تقاضا) تھا ۔ اب چُونکہ حکومتِ اسلام ہندوستان  میں  باقی نہیں  ، کوئی روک تھام کرنے والا باقی نہ رہا، ہر شخص جو چاہتا ہے بکتا ہے اور آئے    دن مسلمانوں   میں   فَساد پیدا ہوتا ہے ، نئے نئے مذہب پیدا ہوتے رہتے ہیں  ، ایک خاندان بلکہ بعض جگہ ایک گھر میں   کئی مذہب    ہیں   اور بات بات پر جھگڑے لڑائی ہیں  ، ان تمام خرابیوں   کا   باعِث یِہی نیا مذہب ہے ۔  ایسی صورت میں   سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قراٰن و حدیث میں   ارشاد ہوئی، اگر مسلمان اُس پر عمل کریں   تمام قِصّوں   سے نَجات پائیں   دنیا و آخِرت کی بھلائی ہاتھ آئے ۔  وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں   سے بالکل مَیل جُول چھوڑ دیں  ، سلام کلام ترک کر دیں  ، ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا، اُن کے ساتھ کھانا پینا، اُن کے یہاں   شادی بیاہ کرنا غَرَض ہر قسم کے تعلُّقات ان سے قَطع کر دیں   گویا سمجھیں   کہ وہ اب رہا ہی نہیں   ۔             ( بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص۱۷۵)

عورت یا بچّہ مُرتَد ہو تو سزا

سُوال : اگر عورت یا سمجھدار بچّہ مُرتَد ہو جائے تو کیا اُس کو بھی قتل کیا جائے گا ؟

جواب :  نہیں   ۔ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ  علّامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   : عورت یا نابالِغ سمجھ وال( یعنی سمجھدار ) بچّہ مُرتَد ہو جائے تو قتل نہ کرینگے ۔ بلکہ قید کرینگے یہاں   تک کہ توبہ کرے اور مسلمان ہو جائے ۔ ( بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص۱۷۵، عالمگیری ج۲ ص۲۵۴)

مُرتَد کی اولاد حرامی ہوتی ہے

سُوال : کیا مُرتَد کی اولاد حرامی ہو گی ؟

جواب :  جی ہاں   ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فُقَہائے کرام رَحِمَھُمُ  اللّٰہُ السَّلام سے نَقل کرتے ہیں   : جو شخص معاذَاللہمُرتَد ہو جائے اُس کی عورت حرام ہو جاتی ہے ، پھر اسلام لائے تو اُس سے جدید نکاح کیاجائے  ۔ اس سے پہلے اس کلِمۂ کفر کے بعد کی صُحبت سے جو بچّہ ہو گا حرامی ہو گا اور یہ شخص اگر عادت کے طور پر کلمۂ شہادت پڑھتا رہے کچھ فائدہ نہ دے گا جب تک اپنے اس کُفر سے توبہ نہ کرے کہ عادت کے طور پرمُرتَد کے کلمہ پڑھنے سے اس کا کُفر نہیں   جاتا ۔  (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص ۲۹۹ ۔ ۳۰۰)

 کیا مُرتد کے تمام اعمال ضائِع ہوجاتے ہیں  ؟

 سُوال : کیا کلمۂ کُفْر بکنے سے تمام اَعمال اَکارَت ہو جاتے ہیں   ؟

جواب :   کُفْر قَطْعی بک کریا اِس طرح کا فِعلِ کفر کر کے جو کافر  ومُرتَدہوا اس کے تمام اَعْمال برباد ہو جاتے ہیں  ۔ پارہ2 سُورَۃُ الْبَقَرَہ آیت نمبر217میں   فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

 

وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۱۷)     (پ ۲البقرۃ  ۲۱۷)

تَرجَمَۂ کنزالایمان : اورتم میں   جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہو کر مرے توان لوگوں   کا کیا اکارت گیادنیا اور آخِرت میں  اور وہ دوزخ والے ہیں   انہیں  اس میں  ہمیشہ رہنا ۔  

کُفْر بکنے والے کی ہاں   میں   ہاں   ملانے والے کا حکم

سُوال :  کفر بکنے والے کی ہاں   میں   ہاں   ملانے والے کے بارے میں   کیا حکمِ شرعی ہے ؟

جواب : اگر فِقہی و لُزومی کفر  بکا ہے تو بکنے والا اور ہاں   میں   ہاں   ملانے والا اسلام سے خارِج نہ ہوئے اور سابِقہ نیک اَعمال بھی برباد نہ ہوئے ۔   البتّہ توبہ و تجدید ِایمان فرض ہے اور بیوی والے کو تجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گاالبتّہ بِلا اِکراہِ شَرعی ہوش و حَواس میں   صریح کُفر بکنے والا ، ایسے ہی صریح کلمۂ کفر کے معنیٰ سمجھنے کے باوُجود ہاں   میں   ہاں   ملانے والا اور تائید میں   

Index