کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

حضرت ِ امامِ اعظم ، فَقِیہِ اَفْخَم، امامِ  ابو حنیفہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا خوفِ خدا  مُلاحَظہ ہو ۔  چُنانچِہ منقول ہے : ایک بارحضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کسی سے گفتگوفرما رہے تھے کہ کسی بات پر اچانک اُس شخص نے امامِ اعظم  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا :  اِتَّقِ اللّٰہ !  یعنی خدا سے ڈرو ! ان ا لفاظ کا اُس کے مُنہ سے نکلنا تھا کہ سیِّدُنا امامِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا چِہرہ زَرد پڑ گیا ، سر جُھکا لیا اورفرمانے لگے :  ’’ بھائی  ! اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو جَزائے خیر دے ، عِلم پر جس وَقت کسی کو ناز ہونے لگے اُس وقت وہ اِس بات کا ضَرورت مند ہوتا ہے کہ کوئی اس کواللّٰہعَزَّوَجَلَّ  کی یاددلا دے  ‘‘  ۔   ( عقود الجمان ص ۲۲۷)

گناہِ صغیرہ کب کُفر ہوتا ہے

                 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  یہاں   ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت حصّہ چہارُم صَفْحَہ 369تا 370 سے چند سُطور پیش کرتا ہوں   جن میں   معلومات کا بیش بہا خَزانہ ہے ۔  چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امامِ اَہْلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   :  ’’ حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الوالی  نے لکھا ہے تَواجُد( یعنی وَجد کی نَقّالی ) سے وَجْد پید ا ہوتا ہے ۔  تَشَبُّہ( یعنی نَقّالی ) کی صورت یہ ہے کہ بہ تکلُّف وَجد بنائے (کہ )  ہوتے ہوتے (صحیح وَجد بھی)ہو جائے گا ۔  ہاں   یہ نیّت نہ ہو کہ لوگ میری تعریف کریں  (کہ) یہ رِیا ہے اور حرام ہے ۔  عرض :  (کیا) صغیرہ کا اِستِخفاف (یعنی ہلکا جاننا) کبیرہ ہے ؟ارشاد :  (بلکہ ) بعض اوقات صغیرہ کا اِستِخفاف(یعنی ہلکا جاننا)  کُفرہوجائے گا جبکہ اس کا گناہ ہونا ضَروریاتِ دین سے ہو ۔ عُلَماء فرماتے ہیں  : کسی نے کوئی گناہ کیا، اُس سے لوگوں   نے کہا :  توبہ کر ۔  جواب دیا :  چِہ کَردہ اَمْ کہ تَوْبَہ کُنَم ؟(یعنی  ’’ میں   نے کیا کِیاہے جو توبہ کروں  ؟ ‘‘  اُس کا یہ جواب) کفر (ہے ) ۔ بَہُت سے صَغائر(یعنی  چھوٹے گناہ)  ایسے ہیں   جن کا مَعصِیّت (نافرمانی)ہونا ضَروریاتِ دین سے ہے مَثَلاً اَجْنَبِیَّہسے مَس وتَقبِیل (یعنی غیر عورت کو  چُھونااور بوسہ لینا گناہِ) صغیر ہ ہے ۔  اِلاَّ اللَّمَمیں   داخِل ہے مگر حلال جانے کافر ہے ( پھر فرمایا) جس کو سمجھا کہ یہ ہلکا گناہ ہے فوراً صغیرہ سے کبیرہ ہو گیا ۔  اولیائے کرام  (رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام)فرماتے ہیں   : اِس گناہ کو دوسرے گناہ سے نسبت دیتا ہے کہ اُس سے چھوٹا ہے ، یہ نہیں   دیکھتا کہ گناہ کس کا کر رہا ہے  ! اگر دیکھتا تو یہ فرق نہ کرتا ‘‘  ۔    

ناحق مال چھین کر لانے والے کی تعریف کرنا کیسا ؟

سُوال :  جو کسی کا مال چُراکریاناحق چِھین کر لائے ۔  اُس سے تعریفاً یہ کہنا کیسا کہ تو نے بَہُت اچّھا کیا ۔

جواب : خودچوری اور غصب کے فعل کو اچّھا کہنے کے طور پر چور یا غاصِب کو اچّھا  کہناکُفر ہے ۔

   نیکیوں   کو اچّھا نہ ماننا کیسا ؟

سُوال :  جونیکیوں   کو اچّھا اور گناہوں   کو بُرا نہ مانے وہ کیسا ہے ؟

جواب :  ایسے شخص پر حکم ِکُفر ہے  ۔ چُنانچِہ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام کا فرمانِ عبرت نشان ہے : جونیکیوں   کو اچّھا ، گناہوں   کو بُرا، نیکیوں   پر ثواب ، گناہوں   پر اِستحقاقِ عذاب اور عبادت کا وُجوب(یعنی واجِب وضروری ہونا) نہ مانے اس پر حکمِ کفرہے ۔  ( مَجْمَعُ الْاَنْہُرج۲ص۵۰۹)

          ان جزئیات کو دیکھتے ہوئے  ایمان کی حفاظتکی فِکر کیجئے ۔  خدانخواستہ کفر پر خاتمہ ہو گیا تو کہیں   کے نہ رہیں   گے ۔  ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المبین ایمان کی حفاظتکی بہت فِکر رکھتے تھے ۔  چُنانچِہ دو حِکایات مُلاحَظہ فرمایئے :

    (1)   حکایت  : حضرتِ سیِّدُنا حبیب عجمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا : جس شخص کا خاتمہلَآ اِلٰہَ اِلَّاا للّٰہُ ( کلمہ توحید) پر ہوتا ہے وہ جنّت میں   داخِل ہوتا ہے ۔  پھر رونے لگے اور فرمایا :  کون میرے لئے ضمانت دیتا ہے کہ میرا خاتمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّاا للّٰہُ پر ہو گا ۔  ( تَنْبِیْہُ الْمُغْتَرِّیْن ص۱۶۱)

    (2) حکایت  : حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایاکرتے  تھے :  ہمیں   یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص ایک ہزار سال بعد جہنَّم سے نکلے گا ۔  پھر فرمایا :  کاش !  وہ شخص میں   ہوتا کیونکہ جہنَّم سے اس کا نکلنا یقینی ہے ۔ (یعنی اُس کا ایمان پر خاتِمہ ہونا طے شدہ ہے ) حضرتِ سیِّدنا شیخ عبد الوہّاب شَعرانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی یہ حِکایت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں  : اے بھائی ! اپنے نَفس کودُ نیوی اُمور میں   صِر ف ضَرورتِ شَرعِیَّہ کے مطابِق مشغول رکھ، ہو سکتا ہے تجھے غفلت کی حالت میں   موت آ جائے ، تویوں   تجھے دونوں   جہانوں   میں   نقصان اٹھانا پڑے ۔   وَالْعِیاذُ باللّٰہِ تعالٰی ۔ ( تَنْبِیْہُ الْمُغْتَرِّیْن ص۱۶۱)

مسلمان کا قَتْل حلال جاننا کیسا ؟

سُوال : کسی مسلمان کے ظُلماً قتل کرنے کو جائز قرار دینے والے کے بارے میں   کیا حکم ہے ؟

جواب  : ایسا شخص کافر  ہے ۔   فُقَہائے کرام  رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام فرماتے ہیں  : وجہِ شَرْعی کے بِغیر کہنا کہ ’’ فُلاں   کاقَتل حلال ہے  ‘‘  کُفْر ہے ۔ (مِنَحُ الرَّوض ص ۴۸۵)          

بد فِعلی کو جائز سمجھنا کیسا ؟

سُوال :  جوبد فِعلی کو جائز سمجھے یا جائز کہے کیا وہ مسلمان ہی رہے گا ؟

جواب : نہیں  ، وہ کافِر ہو جائیگا ۔