اوران کی شرکت کسی طرح روا نہیں ، اور شریک ومعاون سب گنہگار ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔
سُوال : اپنے مرے ہوئے مُرتَد باپ کو مرحوم کہہ سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب : اِرتدِاد کا علم ہونے کی صُورت میں مرحوم کہنا کُفر ہے ۔ صدرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّریقہ، حضرتِ علّامہ مَوْلانامُفتی محمد امجَد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ جو کسی کافِر کیلئے اس کے مرنے کے بعد مغفِرت کی دُعا کرے یا کسی مُردہ مُرتد کو مرحوم(یعنی رحمت کیا جائے ) یا مغفور( یعنی مغفرت کیا جائے ) یا کسی مر ے ہوئے ہندو کو بَیْکُنْٹھ(بے ۔ کُنْ ۔ ٹھ)باشی(یعنی جنّتی) کہے وہ خود کافِر ہے ۔ ‘‘ (بہارِ شریعتحصّہ۱ ص۹۷)
نماز اور درسِ فیضانِ سنّت میں والِدَین کیلئے دعائے مغفِرت کا نازُک مسئلہ
سُوال : اگر کسی کے والِدَین یا دونوں میں سے ایک کافر یا مُرتَد ہو تو وہ فیضانِ سنّت کادرس دینے کے بعد یہ دعا : ’’ یااللّٰہ ہماری، ہمارے ماں باپ کی اور ساری اُمّت کی مغفِرت فرما ۔ ‘‘ کر سکتا ہے یا نہیں ؟ نیز نَمازمیں اس قراٰنی دعاء رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ.......کا یہ حصّہ رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ ۔ اِلخ (یعنی اے ہمارے پروردگار ! میری اور میرے ماں باپ کی مغفِرت فرما ۔ اِلخ) پڑھے یا نہیں ؟
جواب : اگروالِدَین کافِر ہوں تو اُن کے لئے دعائے مغفِرت کرنا کُفر ہے ۔ اِس لئے درسِ فیضانِ سنّت میں دعاکے یہ الفاظ ’’ ہمارے ماں باپ کی ‘‘ نہ بولے بلکہ اِس طرح دعاء کرے : یااللّٰہ ہماری اور ساری امّت کی مغفِرت فرما ۔ نَماز میں بھی ایسی دعا نہیں پڑھ سکتا ۔ اگرسُوال میں مذکور دعاء کا ترجَمہ جانتا ہے کہ والدَین کی بخشش کی دُعا اس میں ہے اور جانتا ہے کہ اس کے والِدَین کافر یا مرتد ہیں پھر بھی جان بوجھ کر اپنے والدَین کی مغفِرت کی نیّت سے اِس نے یہ دُعا کی تو اس دُعا کرنے والے پر حکمِ کفر ہے اور توبہ و تجدیدِ ایمان اس پر فرض ہے ۔
خاندان کاکوئی فرد بِالفرض کافِر ہو تو ۔ ۔ ۔ ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ماں باپ یا خاندان کاکوئی فرد اگر مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کافر یا مُرتد ہو تو واقِعی سخت آزمائش ہوتی ہے ، مگر کسی صورت شریعت کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ ذَیل میں دی ہوئی آیت اور اس کے تحت دیا ہوا مضمون پڑھیں گے تو اِن شاءَ اللّٰہعَزَّوَجَلَّاستِقامت ملنے کے ساتھ ساتھمعلومات کاخزانۂ لاجواب ہاتھ آئے گا ۔ چُنانچِہ پارہ28 سورۂ مُجادَلہ آیت نمبر22میں ارشادِ ربُّ العباد ہے :
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ- (پ۲۸ المجادلۃ ۲۲)
ترجَمۂ کنزالایمان : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کوجو یقین رکھتے ہیں اللّٰہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللّٰہ اور اس کے رسول سے مخالَفَت کی اگر چِہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کُنبے والے ہوں ۔
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان ، شانِ حبیبُ الرحمن صَفْحَہ235تا236 پر فرماتے ہیں : یہ آیتِ کریمہ بھی حُضور عَلَیْہِ السَّلَام کی نعت ہے اور مسلمانوں کی پہچان ہے ۔ اس میں مسلمانوں کی نشانی یہ بتائی گئی کہ مومِن ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کہ اللہ و رسول عَلَیْہِ السَّلَام کے دشمنوں سے مَحَبَّترکھے اگر چِہ وہ اس کے خاص اہلِ قَرابت ہی ہوں ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اگر چِہ ماں باپ کا بَہُت بڑا حق ہے ، مگر حقِّ مصطَفٰے عَلَیْہِ السَّلَام کے مقابلہ میں کسی کا کچھ حق نہیں ۔
ماں باپ اگر کافِر ہو ں تو ان سے مَحَبَّت حرام ہے
حضور عَلَیْہِ السَّلَام کا حکم ہے کہ داڑھی رکھو ۔ ماں یا باپ یایاردوست کہیں کہ داڑھی مُنڈواؤ ہرگز جائز نہیں کہ مُنڈائے ۔ رب کا حکم ہے کہ نَماز پڑھو اور روزہ رکھو ۔ ماں کہے : یہ کام نہ کر ۔ ماں کی بات ہرگز نہ مانی جاویگی ۔ کیوں کہ اللہ و رسول عَلَیْہِ السَّلَام کا حق سب پر مُقَدَّم (یعنی سب سے بڑھ کر) ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کابیٹا یابھائی یا باپ یا ماں کافر ہوں ، تو ان سے مَحَبَّت ، دوستی تمام کی تمام حرام ہیں ۔
صَحابہ نے جنگ میں کافر رشتے داروں کوقَتْل کیا
اِس آیت کی تفسیر صَحابۂ کرام(عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ) کی زِندگی ہے ۔ چُنانچِہ حضرتِ ابو عُبَیدہ بِن جَرّاح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگِ اُحُد میں اپنے والِد ’’ جَرّاح ‘‘ کو قتل کیا، حضرتِ سیِّدُنا ابو بکرصِدّیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے فرزند عبدالرحمن کو جو اُس وَقت کافِر تھے مقابلہ کے لئے بلایا کہ عبدالرحمٰن آؤ ! آج باپ بیٹے دو دو ہاتھ ہو جائیں ! لیکن حُضور عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کو روک دیا(اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمنرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بعد میں مسلمان ہو گئے ) حضرت مُصعَب بِن عُمَیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھائی عبدُ اللہ بن عُمَیر کو قتل کیاجو کافِر تھا اور حضرتِ عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے ماموں عاص بِن ہَشّام بن مُغِیرہ کو قتل کیاجو کافر تھا، اور حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت