(2) تقریظ جلیل
از : مفتیان کرام مدظلہم دارالافتاء اہلسنّت (دعوتِ اسلامی)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
مسلمان کیلئے سب سے اَہم اورعزیز ترین مَتاع اُس کا اِیمان ہے اور سب سے زیادہ اِسی کی حفاظت کی ضرورت ہے ۔ شیطان ہمارا سب سے بڑا دُشمن ہے اور اس کا سب سے شدید حملہ اِسی اِیمان پر ہوتا ہے ۔ اس لئے نہایت ضروری ہے کہ ہر مسلمان اپنے اِیمان کی حِفاظت کی فِکرمیں لگارہے اور اللہ تعالیٰ سے دُعا ، اولیاء کرام سے وابستگی کے ساتھ مزید جو اَہم اِقدامات اس سلسلے میں کئے جاسکتے ہیں انہیں بروئے کار لائے ۔ اِیمان کی حفاظت کے اَہم ذرائع میں سے ایک ذریعہ یہ ہے کہ جو چیزیں اِیمانیات میں داخِل ہیں اور جن چیزوں سے اِیمان پر اَثر پڑتا ہے اُن کا علم حاصل کیا جائے تاکہ ہم ہر وقت ایسی تمام چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں جو اِیمان کے منافی ہیں ۔ ان چیزوں کا علم حاصل کئے بغیر کُفریات سے بچنا نہایت مُشکِل ہے لیکن نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ جس طرح کثیر مسلمان دِین کے دیگر شعبوں سے متعلق غفلت و کاہلی اور لاعلمی کا شکار ہیں اسی طرح اِیمانیات اور کُفریات جیسے اَہم اور نازُک مسائل سے بھی غافِل و کاہِل ہیں اور آئے دن نجا نے کتنے مسلمان ایسے ہیں جو مذاق میں یا گپیں ہانکتے ہوئے کفریہ جُملے بول دیتے ہیں اور اس رِوایت و حکم کا مِصدَاق بنتے ہیں کہ بعض اوقات آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ بول دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہمیشہ کی ناراضی لکھ دیتا ہے ۔
موضوع کی نَزاکت و اَہمیت کے پیشِ نظر اس موضوع پر علماء نے بکثرت کتابیں لکھی ہیں ۔ تقریباً ہر فقہی کتاب میں ’’ کتاب السیر ‘‘ کے نام سے اس موضوع سے متعلق مواد موجود ہوتا ہے اور علم الکلام کی کتابوں میں بھی اس موضوع پر باب باندھے جاتے ہیں ۔ اس موضوع پر امام اہلسنّت، مجدِّد دِین ومِلّت، مولیٰنا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کا کلام فتاویٰ رضویہ اور المعتمد المستندمیں جبکہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کا کلام بہارِ شریعت اور فتاویٰ امجدیہ میں موجود ہے ۔ اسی طرح دیگر علماء اہلسنّت کی بھی اس موضوع پر نہایت مُفِید اور علمی کتابیں موجود ہیں ۔
سیِّدی، مُرشِدی، شیخِ طریقت، امیر اہلسنّت، حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّارؔ قادری رضوی ضیائی دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذاتِ مبارکہ تبلیغ و اِشاعتِ دِین اور مسلمانوں کی اصلاحِ احوال کیلئے دُنیا بھر میں معروف و مقبول ہے ۔ آپ نے جس طرح عقائد و اَعمال کی اِصلاح کیلئے دعوتِ اسلامی کی بنیاد رکھی، اسے پروان چڑھایا، دُنیا کے کونے کونے تک پَہُنچایا، کثیر کُتُب تصنیف فرمائیں ، بیانات کئے ، مدنی مذاکرے فرمائے ، آپ نے اپنی تمام تر مصروفیات کو اُمتِ محمدیہ علٰی صَاحِبھَا الصلٰوۃُ وَ السَّلام کے لئے وقف کردیا ہے ، یہاں تک کہ آپ نے اپنی کھانے کی مجلسوں تک کو اِصلاحِ اُمت کیلئے وقف کررکھا ہے ۔ ہر واقف ِ حال شخص آپ کی حفاظت ِ اِیمان کی کڑھن کو بہتر طور پر جانتا اور سمجھتا ہے ۔ مسلمانوں کے اِیمان کی حفاظت کے اسی جذبے کے پیشِ نظر آپ دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اس نازُک موضوع پرقلم اُٹھایا اور محنت شاقّہ کے بعد کثیر کتابوں کے مواد کو پیشِ نظر رکھ کر اپنی عادت ِ مبارکہ کے مطابق نہایت آسان الفاظ و پیرایہ میں اس موضوع پر زیرِنظر عظیم وضخیم اور جمیل وجلیل کتاب تالیف فرمائی ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر قلم اُٹھانا نہایت ہی دُشوار اور کٹھن کام ہے ۔ مواد کی فراہمی، اُس کی صحت کا اِلتزام، اَکابِر بُزُرگانِ دین اور ائمہ دِین کی تحقیقات سے مُطابقَت، تمام مَواد کی تسہیل و تخریج پھر حتَّی الامکان بار بار بکثرت علماء سے کتاب میں مذکور بیسیوں جُزئیات پر مُفَصّل کلام اور خط و کتابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ، اس کا اَندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے سب سے پہلے اس کتاب کے لئے مواد اکٹھا کیا، اس کو ترتیب دینے کے بعد دعوتِ اسلامی کی مجلس اِفتاء کے مفتیان کرام کو تفتیش کیلئے بھیجا ، مجلس اِفتاء نے باقاعدہ کئی ہفتوں تک کئی کئی گھنٹوں کی طویل نشستوں میں اس کتاب کے ایک ایک جزئیہ پر غور کیا ، جن پر اِشکال تھا اصل کُتُب سے مراجعت اور بڑی بحث و تمحیص و غور وفکر کے بعد اس جزئیہ کو رکھنے یا نہ رکھنے پر اِتِّفاق کیا ۔ نیز کثیراَحکام کاجزئیات کی روشنی میں اِستخراج کیا ، مختلف متعارِض جزئیات کی تنقیح کے ساتھ ساتھ کسی کلمہ کے توہین آمیز ہونے یا نہ ہونے نیز موہم ہونے یا صریح ہونے پر بھی تفصیلی کلام کیا گیا ۔ پھرکئی دفعہ بنفسِ نفیس امیر اہلسنّت مدظلہ العالی کی موجودگی میں پوری پوری رات اس کتاب کے جُزئیات واَحکامات کے متعلق بحث ہوتی رہی، بالآخر یہ گوہر نایاب گوہر مُراد تک پَہُنچا ۔ مذکورہ طریقۂ کار سے واضِح ہوجاتا ہے کہ اس کتاب کا طویل سفر کیسے گزرا لیکن پھر بھی امیر اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی طبیعت میں مایوسی اور ہمت ہارنا نام کو نہیں آیا بلکہ اَہم کاموں کے متعلق غور کرکے ، ہدف مُقرّر کرکے تن دہی کے ساتھ اس میں لگے رہے اور اسے پایۂ تکمیل تک پَہُنچاکر ہی دم لیا ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کتاب کو امیر اہلسنّت مدظلہ العالی نے اس قدر جانفشانی اوراِحتیاط کے ساتھ تحریر فرمایا ہے کہ بِلامُبالغَہ اُردو زبان میں اِیمانیات اور کفریات کے موضوع پر اس سے زیادہ جامع ، مُفید اور اَہم کتاب آج تک دیکھنے میں نہیں آئی ۔ پھر اس موضوع پر لکھی جانے والی دیگر کُتُب کے مقابلہ میں اس کتاب میں بعض خُصُوصیات کے حوالہ سے اِنفرادیت بھی ہے کہ اس کتاب میں امیر اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے جُزئیات جمع کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں بولے جانے والے کفریہ جُملے اور کفریہ اَفعال اور گانوں کے کفریہ اَشعار کی نشاندہی بھی فرمائی اور ان کو علماء کرام کے جُزئیات کی روشنی میں مُدَلَّل بھی فرمایا اور جہاں ممکن ہوا وہاں اس جُملہ کے کفریہ ہونے کی علّت بھی بیان فرمائی ، ساتھ ہی ساتھ اس کتاب میں جابجا اِصلاح کے مدنی پھول، آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہ، صحابۂ کرام اور بُزُرگانِ دین کے اَقوال وواقعات اور شرعی اَحکام بھی پیش فرمائے تاکہ اس کتاب کا پڑھنے والا اُکتاہٹ کا شکار بھی نہ ہو اور اَحکامِ شرعیہ اور اِصلاح کے مدنی پھولوں سے اِستفادہ بھی کرسکے ۔
مجلس اِفتاء (دعوت اسلامی)کے تمام مُفتیانِ کرام کو اس بات کا اِقرار ہے کہ ہم نے اس کتاب کا کئی باربغور مُطالَعَہ کیا ہے اور اپنی معلومات کی حد تک اسے شرعی غلطیوں سے مُبرَّا پایا ہے ۔