ص۲۶۱)
{24} اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام کی تَصغیر(تَص ۔ غِیر) کرنا کُفرہے ، جیسے کسی کا نام عبدُ اللہ یا عبد الخالق یا عبدُ الرحمٰن ہو، اُسے پکارنے میں آخِر میں الفؔ وغیرہ ایسے حُرُوف مِلادیں جس سے تَصغیر سمجھی جاتی ہے ۔ (بہارِ شریعتحصّہ ۹ ص۱۸۰، اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج۵ ص۲۰۳) تَصغیر کا مطلب ہے کسی شے کو چَھوٹا کر کے بیان کرنا، جیسے کتاب سے کِتابچہ ، مکھ سے مُکھڑا، کمر سے کمریا، روپیہ سے رُپَلّی، آنکھ سے اَنکھڑی، نگر سے نگری یا نگریاوغیرہ وغیرہ ۔ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : بعض اسمائے اِلٰہیّہ جن کا اِطلاق (یعنی بولا جانا) غیرُ اللہ(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا دوسروں ) پر جائز ہے ان کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے جیسے علی، رشید، کبیر، بَدِیع ۔ کیونکہ بندوں کے ( رکھے جانے والے ان) ناموں میں وہ معنیٰ مُراد نہیں جن کا ارادہ اللہ تعالیٰ پر اِطلاق کرنے (یعنی بولے جانے ) میں ہوتا ہے اور ان ناموں میں اَلِف ولام ملا کر بھی نام رکھنا جائز ہے مَثَلاً اَلعلی، اَلرَّشید، ہاں اس زمانے میں چونکہ عوام میں ناموں کی تَصغیر کرنے کا بکثرت رَواج ہوگیا ہے لہٰذا جہاں ایسا گمان ہو ایسے نام (رکھنے )سے بچنا ہی مُناسِب ہے ۔ خُصُوصاً جب اسمائے الہٰیَّہ کے ساتھ عَبد کا لفظ ملا کر نام رکھا گیامَثَلاً عبدُالرّحیم ، عبدُالکریم، عبدُالعزیز کہ یہاں مُضاف اِلیہ([1])سے مُراد اللہ تعالیٰ ہے اور ایسی صورت میں تَصغیر اگر قصداً ہوتی تو معاذَ اللہ کُفر ہوتی کیونکہ یہ اس شخص کی تصغیر نہیں بلکہ معبودِ برحق جَلَّ جَلا لُہٗ کی تَصغیر ہے مگر عوام اور ناواقِفوں کا یہ مقصد یقینا نہیں ہے اسی لیے وہ حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ ان کو سمجھایا اور بتایا جائے اور ایسے موقع پر ایسے نام ہی نہ رکھے جائیں جہاں یہ اِحتِمال(یعنی گمان) ہو ۔ (بہارِشریعت حصّہ ۱۶ ص ۲۴۵ مکتبۃ المدینہ ، دُرِّمُختار، رَدُّ الْمُحتار ج۹، ص۶۸۸ )
{25} اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے یہ ماننا کہ وہ سوتا{26}اُونگھتااور {27} بہکتا ہے کفر ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱۵ ص۱۸۳)
{28}جوشخص دنیا میں اللّٰہعَزَّوَجَلَّ سے کلام ِحقیقی کا مُدَّعی(دعویدار) ہو کافر ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱۵ ص ۱۸۶)
{29}یہ کہنا کہ ’’ اللہ تعالیٰ کا علم قدیم نہیں ہے ۔ ‘‘ کفر ہے ۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ ص ۲۶۲)
{30}جو اللہ کے لئے باپ یا{31} بیوی یا{32} بیٹا مانے وہ کافر ہے اور جو ممکن کہے وہ گمراہ بددین ہے ۔ (بہارِ شریعتحصّہ اول ص۱۸)
{33} اگر ضروریاتِ دین سے کسی چیز کامنکرہو تو کافر ہے ۔ جیسے یہ کہناکہ اللہ تعالیٰ اَجسام کے مانند جسم ہے ۔ یا کہے : ’’ جیسے ہمارے ہاتھ یا پاؤں ہیں ایسے ہی جسم کے ٹکڑے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے بھی ہیں ۔ ‘‘ ( دُرِّمُختارج۲ ص ۳۵۸ )
{34}اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف جَہالت یا{35} عِجز(یعنی مجبور ہونا)یا {36}نَقص(یعنی خامی) کی نسبت کرنا کُفر ہے ۔ (اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج۵ ص۲۰۲)
{37} ’’ خدا سے چھین لاؤں گا ‘‘ کہنا کلِمۂ کفر ہے ۔
{38}یہ کہنا : ’’ چھوڑ و یار ! خدا سے ہم خود ہی نِمَٹ لیں گے ۔ ‘‘ یہکلِمۂ کفر ہے ۔
{39}جو کہے کہ مَعدوم(یعنی جو ابھی وُجود میں نہیں آئی ایسی ) شے اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں وہ کافِر ہے ۔ (اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج۵ ص ۲۰۳)