کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

بھی صریح کفر ہے ۔

(21)

مجھے بتا او جہاں   کے مالک یہ کیا نظارے دکھا رہا ہے

ترے سمندر میں   کیاکمی تھی کہ آج مجھ کو رُلا رہا ہے

 

             اِس شعر میں   اللہ  عَزَّوَجَلَّ   پر اِعتِراض کا پہلو نُمایاں   ہے اِس لئیکُفر کا حکم ہے ۔ اور اگر شاعر یا جو پڑھے اُس کی مُراد  اللہ  عَزَّوَجَلَّ  پر اعتِراض ہو تو  صریح کُفر ہے اور وہ کافِر و مُرتَد ہو جائیگا ۔  

(22)

ہردُکھ کوہے گلے لگایا،           ہرمشکل میں   ساتھ نبھایا

ان کی کیا تعریف کروں   میں  ،         فرصت سے ہے رب نے بنا یا

            اِس شعر میں   فرصت سے ہے رب نے بنایا کے الفاظ کفریہ ہیں   کیوں   کہ اللہ تعالیٰ کے لئے  ’’  فُرصت ‘‘  کا لفْظ بولنا کُفْر ہے ۔

(23)

اے خُدا بہتر ہے یہ کہ تُوچُھپا پردے میں   ہے

بیچ  ڈالیں   گے تجھے یہ لوگ اِسی چکّر میں   ہیں

            اس  شِعْر میں  ربُّ العٰلَمِین جَلَّ جلا لہٗ کو مجبورو بے بس اور دھوکہ کھا جانے والا کہا گیا ہے جوکہ اللّٰہُ ربُّ العٰلَمِین کی کھلی توہین ہے ۔ اور اللّٰہُ المبینکی توہین کفر ہے ۔

(24)

اب یہ جان لے لے یارب، یا ایمان لے لے یا رب

دوجہان لے لے یارب، یا خدا ! فَنافَنا یہ دل ہوا فَنا

 

     اِس شعرکے اِس حصّے ایمان لے لے یارب میں   ایمان چلے جانے یعنی کافر ہوجانے پر راضی ہونا پایا جارہا ہے جوکہ کفر ہے ۔  ’’ فتاوٰی تاتارخانیہ ‘‘  میں   ہے :  ’’ جو اپنے کفر پر راضی ہوا تحقیق اُس نے کفر کیا ۔  (فتاوٰی تاتارخانیہ ، ج ۵ص ۴۶۰)

(25)

جب سے ترے نَیناں   مِرے نَینوں   سے لاگے رے

تب سے دیوانہ ہوا سب سے بیگانہ ہوا

رب بھی دیوانہ لاگے رے

     اِس شعر کے اِس حصّے رب بھی دیوانہ لاگے رے میں   شاعِرِ بے بَصائر کے دعوے کے مطابق اس کو خداوندِ قُدّوسعَزَّوَجَلَّ مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّدیوانہ لگ رہا ہے یقیناً یہ اُسعَزَّوَجَلَّ کی شانِ عالی میں   کُھلی گالی اور کُھلاکُھلا کُفروارتداد ہے ۔  فتاوٰی تاتارخانیہ میں   ہے :  ’’ جو اللہ کو ایسے وَصف(یعنی پہچان یا خاصیَّت) سے موصوف کرے جو اُس کی شان کے لائِق نہیں   یا اللہ تعالیٰ کے ناموں   میں   سے کسی نام کایا اس کے احکام میں   سے کسی حکم کا مذاق اُڑائے یا اس کے وعدے یاوَعید کا انکار کرے تو ایسے آدمی کی تکفیر کی جائے گی یعنی اُس کو کافر قرار دیا جائے گا ۔  ‘‘  (فتاوٰی تاتارخانیہ ، ج ۵ص ۴۶۱)

(26)

جوبھرتا نہیں   وہ زخم دیاہے مجھ کو، نہیں   پیار کو بدنام تو نے کیا ہے

جسے میں   نے پُوجا مَسیحا بنا کر، نہ تھا یہ پتا پتّھروں   کا بنا ہے

اِس شعر میں  اپنے مَجازی محبوب کو پوجنے یعنی اُس کی عبادت کرنے کا اقرار ہے اور شاعر اس کفر کا اقرار کر رہا ہے اورکفر کا اقرار بھی کفر ہے ۔  اگرمذاقاًہو تب بھی یہی حکم ہے ۔  صدرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہ ، علّامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی   فرماتے ہیں   : جو بطورِ  تَمَسْخُر او ر ٹَھٹّھا ( یعنی مذاق مسخری میں  )کفر کریگا وہ بھی مُرتَد ہے اگر چِہ کہتا ہے کہ (میں) ایسا اعتِقاد(یعنی عقیدہ ) نہیں   رکھتا ۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص ۱۷۳،  دُرِّمُختَار ج  ص۳۴۳  )

(27)

رکھوں   گا تمہیں   دھڑکنوں   میں   بسا کے

تمہیں   چاہَتوں   کا خدا میں   بنا کے

 

Index