عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

ہوتے ہو ،  مگر یہاں   پَہُنچ کرآپ کا مُنْتَہائے مقصود  (یعنی سب سے بڑا مقصد )  یِہی رہ جاتا ہے کہ یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ روٹی کا ٹکڑا عطا کردیجئے!  اے میرے بھائی !  اگر اپنیجنّت مانگی ہوتی ،  گناہوں   کی مَغْفِرَت کا سُوال کیا ہوتا ،  اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِضا مندی کا مُطالَبہ کیا ہوتا یا اِسی قسم کا کوئی عظیم مقصد ومُدَّعا اِن کے حُضور پیش کیا ہوتا تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بَرَکت سے وہ عظیم مقاصد بھی حاصل ہوجاتے۔ ‘‘  ( شواہدالحق ص۲۴۰)  اللہ  عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

          اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

مانگیں   گے مانگے جائیں   گے منہ مانگی پائیں   گے

سرکار میں   نہ’’ لا ‘‘ ہے نہ حاجت’’ اگر  ‘‘ کی ہے

 (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  یہ ذہن میں   رہے !  سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

سے اپنی بھوک کی فریاد کرنے میں   مَعَاذَاللہ عَزَّ وَجَلَّکوئی قَباحت (یعنی عیب)  نہیں   ، بلکہ یہ بھی بَہُت بڑی سعادت ہے اور اس سلسلے میں   مُتَعدِّد عُلَما ومُحدِّثِین رَحمَہُمُ اللہُ الْمُبِین کی حکایات پیچھے گزریں   ۔ تاہم سیِّد صاحِب کے مَدَنی پھول بھی اپنی جگہ مدینہ مدینہ ہیں   کہ جب  بَعطائے ربُّ الْعُلیٰ کُل عالم کے سخی داتا ،  مکینِ گنبد خضرا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کے دربار گُہربار میں   دامَن پَسارا ہے تو کم کیوں   مانگیں   ؟  آپ کی بارگاہ میں   تو دنیا و آخِرت کی بَہُت ساری بھلائیوں   کا سُوال کرنا چاہئے ۔مال و جان کی حفاظت دین و ایمان پر استِقامت ،  میٹھے مدینے میں   عافِیَّت کے ساتھ شہادت ،  بقیع شریف میں   جائے تُربَت ،  بے حساب مغفِرت اور جنّتُ الفردوس میں   خود ان ہی کا جوارِ رحمت مانگ لینا چاہئے۔    ؎

مانگنے کا شُعُور دیتے ہیں        جو بھی مانگو حُضُور دیتے ہیں   

کم مانگ رہے ہیں   نہ سِوا مانگ رہے ہیں            جیسا ہے غنی وَیسی عطا مانگ رہے ہیں   

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (۱۹) اعلٰی حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے مِنٰی میں   دعائے مغفِرت کروائی

          اِسی طرح کسی بُزُرْگ سے حُسنِ عقیدت اوربارگاہِ الہٰی میں   ان کی مقبولیت ہونے کا حسنِ ظن قائم ہو تو اُن سے فَقَط دُنیوی حاجت پوری ہونے کی دُعا کی درخواست کرنے کے بجائے بے حساب مغفِرت کی دعا کا بھی کہنا چاہئے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بُزُرگوں   سے صِرْف دعائے مغفِرت کروانے کا معمول تھا۔ چُنانچِہ فرماتے ہیں   :    (پہلی بار حاضِریِ مدینہ کے موقع پر جب مِنیٰ شریف کی مسجِد میں   سے سب لوگ چلے گئے )  تو مسجِدکے اندرونی حصّے میں   ایک صاحِب کو دیکھا کہ قبلہ رُو وظیفہ میں   مصروف ہیں   ، میں   صِحْنِ مسجِدمیں   دروازے کے پاس تھا ا ور کوئی تیسرا مسجِدمیں   نہ تھا۔ یکایک ایک آوازگُنگُناہَٹ کی سی اندر مسجِد کے معلوم ہوئی جیسے شہد کی مکّھی بولتی ہے۔ فوراً میرے قلب میں   یہ حدیث آئی :   ’’اَہلُ اﷲ کے قلب سے ایسی آواز نکلتی ہے جیسے شہد کی مکّھی بولتی ہے۔ ‘‘  (المستدرک  ج۲ ص ۱۸۰حدیث ۱۸۹۸)  میں   

Index