کچھ نیکیاں کمالے جلد آخِرت بنالے
کوئی نہیں بھروسا اے بھائی ! زندَگی کا
(وسائلِ بخشش ص ۱۹۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۷۵) جن کا حج قَبول نہ ہوا اُن پر بھی کرم ہوگیا
حضرتِ سیِّدُنا علی بن مُوَفَّق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَقفرماتے ہیں : میں نے50 سے زائد حج کئے ، سوائے ایک کے سب کا ثواب جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، خلفائے اَربعہ (یعنی چار یار) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماور اپنے والِدَین کو اِیصال کیا، اب ایک حج باقی تھا (جس کا ابھی تک ایصالِ ثواب نہ کیا تھا) ، میں نے میدانِ عَرَفات میں موجود لوگوں کو دیکھا اور ان کی آوازیں سنیں تو بارگاہ ِخداوندی میں عرض کی : یااللہ عَزَّ وَجَلَّاگر ان لوگوں میں کوئی ایسا شخص ہے جس کا حج مقبول نہیں ہوا تو میں نے اپنیحج کا اُسے ایصالِ ثواب کیا۔پھراُس رات جب میں مُزْدَلِفہ میں سویا تو اللہ التوّاب عَزَّ وَجَلَّ کا خواب میں دیدار کیا۔ اللہ تَعَالٰی نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے علی بن مُوَفَّق! کیا تو مجھ پر سخاوت کرتا ہے؟ میں نے عَرَفات میں موجود تمام افراد ، اِن کی تعداد کے برابر مزید اور ان سے بھی دُگنے لوگوں کی مغفِرت فرمادی ہے اور ان میں سے ہر فرد کی اس کے اہلِ خانہ اور پڑوسیوں کے حق میں شَفاعت قبول فرمالی ہے ۔ (روض الریاحین، ص۱۲۸)
کوئی حج کاسبب اب بنا دے مجھ کو کعبے کا جلوہ دکھا دے
دیدِ عَرَفات و دیدِ مِنیٰ کی
میرے مولیٰ تو خیرات دیدے
(وسائل بخش ص۶۷۸ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک شخص نے حضرتِ سیِّدُنا حاتِم اَصَمّ علیہ رحمۃ اللہالاکرم سے عرض کی: ’’ مجھے حج کا سفر درپیش ہے ، کوئی ایساہم سفر بتائیے جس کی صُحبتِ بابرکت کا فیض لُوٹتے ہوئے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضِرہو سکوں ۔ ‘‘ فرمایا : ’’ اے بھائی ! اگر تم ہم نَشین چاہتے ہو توتلاوتِ قرآنِ مُبین کی ہم نشینی (یعنی صُحبت) اختیار کرواور اگر ساتھی چاہتے ہو توفِرِشتوں کو اپنا ساتھی بنالو اور اگر دوست درکارہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّاپنے دوستو ں کے دلوں کا مالِک ہے اوراگر توشہ (یعنی زادِ سفر) چاہتے ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّپر یقین سب سے بہترین تَو شہ ہے اورکعبۃُ اللہ کو اپنے سامنے تصوُّر کرتے ہوئے خوشی سے اِس کاطَواف کرو۔ ‘‘ (بحرالدموع ص ۱۲۵ ) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
مُعجِزہ شَقُّ الْقمر کا ہے ’’مدینہ ‘‘ سے عِیاں
’’مَہ ‘‘ نے شَق ہو کر لیا ہے’’ دین ‘‘ کو آغوش میں
شِعر کا مطلب: اپناتَخَیُّل پیش کرتے ہوئے اس شعر میں شاعِر نے نہایت عُمدہ بات کہی ہے ، کہ بطورِ معجزہ چاند کے جو دو ٹکڑے ہوئے ہیں اس