صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۹۸) اعلیٰ حضرت کے والدِ گرامی کو خصوصی بُلاوا ملا
اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰنکے والدِ گرامی رئیسُ المُتکّلمِین حضرتِ علّامہ مو لانا مفتی نقی علی خان علیہ رحمۃُ اللہ الحنّان عالِمِ اَجَلّ، مفتی ٔ بے بدل اور عاشقِ رسولِ ربِّ لَم یَزَل تھے، ’’ اپنا جانا اور ہے ان کا بلانااور ہے ‘‘ کے مِصداق آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی حاضِری کیلئے خُصُوصی بَلاوا ملا اور وہ یوں کہ خواب میں نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے طلب فرمایا: باوُجُود بیماری اور کمزوری کے چند احباب کے ہمراہ رختِ سفر باندھا اورسُوئے حرم روانہ ہو گئے ، کچھ عقیدت مندوں نے عَلالت ( یعنی بیماری ) کے پیشِ نظر مشورہ دیا کہ یہ سفر آیَندہ سال پر مُلتوی کر دیجئے۔ فرمایا: ’’مدینہ طیِّبہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قصدسے قدم دروازے سے باہر رکھوں پھر چاہے رُوح اُسی وَقت پرواز کر جائے۔ ‘‘ محبوبِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے فِدائی کے جذبۂ مَحَبَّت کی لاج رکھ لی اور خواب ہی میں ایک پیالے میں دوا عنایت فرمائی جس کے پینے سے اس قَدَر افاقہ ہوگیا کہ مَناسِکِ حج کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ رہی۔ (سرورِ القلوب’’د‘ ‘) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
بُلاتے ہیں اُسی کو جس کی بگڑی یہ بناتے ہیں
کمر بندھنا دِیارِ طیبہ کو کھلنا ہے قسمت کا
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۹۹) اصلِ مُراد حاضِری اس پاک درکی ہے
عاشقِ ماہِ رسالت ، اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت ، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن اپنے دوسرے سفرِ حج میں مناسکِ حج ادا کرنے کے بعد شدید عَلیل (یعنی سخت بیمار) ہوگئے مگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اِمْتِدَادِ مَرَض (یعنی بیماری کے طویل ہوجانے) میں مجھے زیادہ فکر حاضِر ی سر کارِ اعظم (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) کی تھی۔جب بخار کو اِمْتِدَاد (یعنی طُول) پکڑتا دیکھا ، میں نے اُسی حالت میں قصْدِ حاضِری کِیا، یہ عُلَما (رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہم) مانِع ہوئے (یعنی روکنے لگے) ۔اوَّل تو یہ فرمایا کہ ’’حالت تو تمہاری یہ ہے اور سفر طویل ! ‘‘ میں نے عَرْض کی : ’’اگر سچ پوچھئے تو حاضِری کا اَصْل مقصود زیارتِ طیِّبہ ہے ، دو نوں بار اِسی نیّت سے گھر سے چلا، مَعَاذَ اللہاگر یہ نہ ہو توحج کا کچھ لُطْف نہیں ۔ ‘‘ اُنہوں نے پھر اِصرار اور میری حالت کا اِشْعار کیا (یعنی میری حالت یاد دلائی) ۔ میں نے حدیث پڑھی : مَنْ حَجَّ وَلَمْ یَزُرْنِیْ فَقَدْ جَفَانِیْجس نے حج کیااور میری زیارت نہ کی اُس نے مجھ پرجَفا کی ۔ (کشف الخفاء ج۲ ص۲۱۸حدیث۲۴۵۸) فرمایا: تم ایک بار تو زِیارت کرچکے ہو ۔ میں نے کہا: میرے نزدیک حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ عُمر میں کتنے ہی حج کرے زیارت ایک بار کافی ہے بلکہ ہر حج کے ساتھ زیارت ضَرور ہے ، اب آپ دعا فرمایئے کہ میں سرکار (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) تک پَہُنچ لوں ۔ روضۂ اقدس پر ایک نگاہ پڑ جائے اگر چِہ اُسی وَقت دَم نکل جائے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت حصہ ۲ص۲۰۱ )