عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں

اور تَفَاوُتِ ثواب (یعنی ثواب میں   فرق)   کا جواب    با صواب  (یعنی دُرُست جواب) شیخ محقق عبد الحق دِہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے کیا خوب دیا کہ’’ مکّے میں کمیت (کَ۔مِیْ۔یَت۔یعنی مِقدار)  زیادہ ہے اور مدینے میں   کیفیت ۔ ‘‘  (’’جذب القلوب ‘‘ ص۱۸) یعنی وہاں   ’’ مقدار ‘‘ زیادہ ہے اور یہاں   ’’ قَدْر ‘‘ اَفْزُوں    (یعنی مالیت زیادہ) ۔ جسے یوں   سمجھیں   کہ لاکھ روپیہ زیادہ کہ پچاس ہزار اشرفیاں   ؟  گنتی میں   وہ  (یعنی لاکھ روپے)  دُونے (ڈبل)  ہیں   اور مالِیَّت میں   یہ  (یعنی پچاس ہزار اشرفیاں   )  دس گُنی ۔ مکۂ معظمہ میں   جس طر ح ایک نیکی لاکھ نیکیاں   ہیں   یوں   ہی ایک گناہ لاکھ گناہ ہیں   اوروہاں    (یعنی مکّہ شریف میں   )  گناہ کے اِرادے پر بھی گرفت ہے جس طرح نیکی کے اِرادے پر ثواب ۔ مدینۂ طیِّبہ میں   نیکی کے اِرادے پر ثواب اور گناہ کے اِرادے پر کچھ نہیں   اور گناہ کرے توایک ہی گناہ اور نیکی کرے تو پچاس ہزار نیکیاں   ۔عَجَب نہیں   کہ حدیث میں   ’’خَیْرٌ لَّھُمْ  ‘‘ (یعنی اُن کے حق میں   بہتر)  کا اِشارہ اِسی طر ف ہو کہ ان کے حق میں   مدینہ ہی بہتر ہے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ،  ص۲۳۶و۲۳۸)

     میرے آقااعلیٰ حضرت،  امامِ اہلِسنّت،  مجدِّدِ دین وملّت ، مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ مخرجہ جلد10صفحہ711پر فرماتے ہیں   :    تُربتِ اطہر یعنی وہ زمین کہ جسم انور سے متّصل ہے کعبۂ  معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے ۔باقی مزار شریف کا بالائی حصّہ اس میں   داخل نہیں   ۔ کعبۂ  معظمہ مدینۂ طیِّبہ سے افضل ہے،  ہاں   اس میں   اختلاف ہے کہ مدینۂ طیِّبہ سوائے موضع تربتِ اطہر اور مکہ معظمہ سوائے کعبۂ  مکرمہ ان دونوں   میں   کون افضل ہے،  اکثر جانبِ ثانی ہیں    (یعنی اکثر کے نزدیک مکہ معظمہ افضل ہے) اور اپنا مسلک اوّل (یعنی مدینۂ طیِّبہ افضل ہے)  اور یہی مذہب فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہے،  طبرانی کی حدیث میں   تصریح ہے کہ اَلْمَدِیْنَۃُ اَفْضَلُ مِنْ مَکَّۃَ    (مدینہ مکہ سے افضل ہے۔   (مُعْجَم کبِیرج۴ص۲۸۸حدیث۴۴۵۰) ) واللہ تعالٰی اعلم (فتاوی رضویہ مخرجہ ج۱۰ ص ۷۱۱)

مکّۂ پاک پر مدینے پر

بارِش اللہُ کے کرم کی ہے

 (وسائلِ بخشش ص۱۲۴)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مَکّۃُالمکرَّمہ مہکی زمین قِیامت تک حرم ہے: 

 حضرت ِسیِّدتناصَفِیَّہ بِنْتِ شَیْبَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا کہ نَبِیِّ رَحْمت،  شفیعِ اُمَّت،  قاسمِ نعمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فتحِ مکّہ کے دن خطبہ دیااورفرمایا:   اے لوگو!  اس شہر کو اُسی دن سے اللہُ نے حرم بنا دیا ہے جس دن آسمان و زمین پیدا کیے لہٰذا یہ قِیامت تک اللہُ کے حرام فرمانے سے حرام (یعنی حُرمت والا)  ہے۔ (ابن ماجہ ج۳ص۵۱۹حدیث۳۱۰۹)

          مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تَحت لکھتے ہیں   :  یعنی اس شہرِ پاک کا حرم شریف ہونا صِرْف اسلام میں   نہیں   ہے بلکہ بڑا پُرانا مسئلہ ہے،  ہر دین میں   یہ جگہ محترم تھی ، وہ  جو باب حرم مدینہ میں   آرہا ہے کہ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے مکۂ معظمہ کو حرم بنایا،  وہاں   یہ مطلب ہے کہ اِس کے حرم ہونے کا اِعلان ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام  نے کیا،  کیونکہ طوفانِ نُوح میں   جب بیتُ الْمَعمور آسمان پر اُٹھالیا تو لوگ یہاں   کی حُرمت وغیرہ بھول گئے، حضرت ِخلیل عَلَیْہِ

Index