حضرتِ مولاناعبدُالْحق اِلٰہ آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ہند کے باشِندے اورجَلیلُ القَدْر عالِمِ دین تھے، چالیس سال سے زائد مکّۂ معظمہ میں قِیام پذیر رہے ۔ اِلتِزاماً (ضَرور) ہر سال حج کرتے۔ ایک سال زمانۂ حج میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بَہُت علیل اور صاحبِ فِراش (یعنی بیمار ہو کر بستر پر پڑے) تھے ، (ذُوالْحِجَّۃُ الْحرام کی ) نویں تاریخ اپنے تَلامِذہ (یعنی شاگِردوں ) سے کہا: ’’مجھے حرم شریف میں لے چلو ! ‘‘ کئی آدَمی اُٹھا کر لا ئے کعبۂ معظمہ کے سامنے بٹھایا ، زمزم شریف منگا کر پِیا اور دُعا کی کہ’’ الٰہی (عَزَّوَجَلَّ) حج سے محروم نہ رکھ۔ ‘‘ اُسی وقت مولیٰ تعالیٰ نے ایسی قوَّت عطا فرمائی کہ اُٹھ کر اپنے پاؤں سے عَرَفات شریف گئے اور حج ادا کیا ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت حصہ ۲ص۱۹۸ملخصاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اگر یقینِ محکم ہو تو بے شک آبِ زم زم پینے کے بعد جو دُعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’ زم زم جس مُراد کیلئے پیا جائے اُسی کیلئے ہے۔ ‘‘
( ابن ماجہ ج۳ص۴۹۰ حدیث ۳۰۶۲)
یہ زم زم اُس لئے ہے جس لئے اس کو پئے کوئی
اِسی زم زم میں جنّت ہے اِسی زم زم میں کوثر ہے
(ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۵۷) حَلْق میں سُوئی چُبھنے کا زم زم سے علاج ہو گیا
حمزہ بن واصِل اپنے والدِ گرامی سے نَقْل کرتے ہیں : حرم ِ محترم میں ایک آدَمی نے ستّو کھائے، اُس میں سُوئی تھی جو کہ حَلْق میں چُبھ گئی اور اُس کی جان پر بن گئی، لاکھ جتن کرنے کے باوُجُود آرام نہ ہوا، اُس نے کراہتے ہوئے کہا: میرا آخِری علاج زم زم ہے مجھے آبِ زم زم پلاؤ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔چُنانچِہ اُسے آبِ زم زم پلایا گیا، اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّآبِ زم زم شریف کی بَرَکت سے اُسے صحّت مل گئی ۔راوی کہتے ہیں : میرے والِد صاحِب نے اُس آدَمی کو کئی دن بعد حرم شریف میں دیکھا کہ وہ پُرسکون اور مکمَّل صِحّت یاب ہے۔ (شفاء الغرام ج۱ ص ۳۳۸ )
میں مکّے میں جَا کر کروں گا طواف اور
نصیب آبِ زم زم مُجھے ہوگا پینا
(وسائلِ بخشش ص۳۲۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(۵۸) پیاس کا بیمار اور آب زم زم کی بہار
ایک یَمنی جو کہ اِسْتِسْقا (اِسْ۔تِسْ۔قا۔ یعنی پیٹ بڑھ جانے اور شدید پیاس لگنے ) کے مَرَض میں مبتَلا تھا ، یمن کے طبیبوں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا تھا مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً حاضِر ہوا، یہاں کے طبیبوں نے بھی معذِرت کر لی۔ اللہ تَعَالٰی نے اس کے دل میں ڈالا کہ وہ آبِ زم زم پئے چُنانچِہ اُس نے خوب پیٹ بھر کر آبِ زم زم پِیا، اور ربُّ الَارْباب عَزَّ وَجَلَّ کے فضل و کرم سے شفا یاب ہو گیا۔ (ایضاً ص ۲۵۵)